واشنگٹن(ایجنسیاں): امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ جوہری ‘آرماگیڈان’ (حق و باطل کا معرکہ) کا خطرہ 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں یہ جانکاری دی ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ جب روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین میں ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی تو وہ ‘مذاق نہیں’ کر رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ روسی صدر پوتن کے جنگ سے نکلنے کا راستہ ‘پتہ لگانے کی کوشش’ کر رہا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے پہلے ہی کہا ہے کہ صدر پوتن کی جوہری تباہی کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ تاہم، ماسکو کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے باوجود امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ کو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ روس فوری طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یوکرین، بشمول ان چار خطوں کو جو روس نے حال ہی میں غیر قانونی طور پر الحاق کیا تھا، روس کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرا رہا ہے۔ کئی مہینوں سے امریکی حکام خبردار کر رہے ہیں کہ اگر روس کو میدان جنگ میں دھچکا لگا تو وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا سہارا لے سکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ جب روسی رہنما ٹیکٹیکل جوہری، حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ ‘مذاق نہیں’ کر رہے تھے – ‘کیونکہ ان کی فوج، آپ کہہ سکتے ہیں، نمایاں طور پر مایوس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے’۔
مسٹر بائیڈن نے اپنی جماعت ڈیموکریٹس کے چند ساتھیوں کو بتایا کہ ‘کیوبا کے میزائل بحران کے بعد پہلی بار، ہمیں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا براہ راست خطرہ ہے، اگر حقیقت میں واقعات ایسے ہی ہوتے رہے جیسا کہ ہو رہے ہیں۔’
‘ہمیں کینیڈی اور کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے آرمیگاڈان (معرکہ خیر و شر) کے امکان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔’