محکمہ انکم ٹیکس نے منگل کو اپنا ‘سروے’ شروع کیا تھا، جو جمعرات کو تقریباً 10 بجے مکمل ہوا
نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کا ‘سروے’ مکمل ہو گیا ہے۔یعنی چھاپے ماری کی کارروائی ختم ہوگئی ہے۔ذہن نشیں رہے کہ محکمہ انکم ٹیکس نے منگل کو اپنا ‘سروے’ شروع کیا تھا، جو جمعرات کو تقریباً 10 بجے مکمل ہوا۔ چھاپہ ماری کی کا یہ عمل کم از کم ٦٠ گھنٹے تک جاری رہا،جسے حکام نے سروے کا نام دیا تھا۔ دریں اژثناء بی بی سی کے ترجمان نے کہا: "انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے دہلی اور ممبئی میں ہمارے دفاتر سے جا چکے ہیں۔ ہم انکم ٹیکس حکام کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے اور امید کرتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو جائے گا۔” بی بی سی کے ترجمان نے کہا کہ وہ اپنے عملے کی مکمل حمایت اور دیکھ بھال کر رہے ہیں، بی بی سی کے ترجمان کے بقول” ہم ان لوگوں کا خاص خٰال رکھ رہے ہیں،جس سے طویل تفتیش کی گئی ہے۔کچھ لوگوں کو تو پوری رات دفتر میں رکنا پڑا۔، ایسے ملازمین کا خیال رکھنا ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے”۔
بی بی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارا کام معمول پر آ رہا ہے اور "ہم اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو منصفانہ خبریں فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں”۔
بی بی سی نے کہا ہے کہ "ہم ایک قابل اعتماد، منصفانہ، بین الاقوامی اور آزاد میڈیا ہیں، ہم اپنے ساتھیوں اور صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو آپ کو بلا خوف و خطر خبریں پہنچاتے رہیں گے۔”
بی بی سی کی جانب سے قبل ازیں یہ بھی کہا گیا کہ”منگل کو انکم ٹیکس حکام کے بی بی سی کے دفاتر میں آنے کے بعد سے ماحول کشیدہ اور خلل انگیز ہے، ہمارے بہت سے ساتھیوں سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان میں سے کچھ کو رات دفتر میں گزارنی پڑی۔”
ذہن نشیں رہے کہ بی بی سی نے حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی پر ایک دستاویزی فلم نشر کی تھی جس کے کچھ ہفتوں بعد نئی دہلی اور ممبئی میں اس کے دفاتر کی تلاشی لی گئی۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزی فلم ہندوستان میں ٹیلی کاسٹ کے لیے نہیں تھی۔ یہ دستاویزی فلم 2002 کے گجرات فسادات پر تھی۔ اس وقت ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔اس دستاویزی فلم میں کئی لوگوں نے گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔
مرکزی حکومت نے اس دستاویزی فلم کو ہندوستان میں آن لائن شیئر ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور اسے نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ پروپیگنڈا اور ہندوستان مخالف قرار دیا۔ بی بی سی نے کہا تھا کہ حکومت ہند کو اس دستاویزی فلم پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا تاہم اس پیشکش پر حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ "اس دستاویزی فلم کی مکمل تحقیق کی گئی، بہت سی آوازوں اور گواہوں کو شامل کیا گیا اور ماہرین سے مشورہ کیا گیا اور ہم نے وسیع پیمانے پر آراء بھی شامل کیں، جن میں بی جے پی کے لوگ بھی شامل ہیں”۔
گزشتہ ماہ دہلی میں پولیس نے کچھ طلباء کو حراست میں لیا تھا جو دستاویزی فلم دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ یہ دستاویزی فلم جواہر لال نہرو یونیورسٹی سمیت ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں دکھائی گئی۔ تاہم کئی مقامات پر پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی۔