مولانا نذر توحید مظاہری کا غیر دستوری انداز میں جھارکھنڈ کے امیر کے طورپر انتخاب
امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ نے سازش وانتشارسے بچنے کی اپیل کی
نئی دہلی/پھلواری شریف ( ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو/یواین آئی )امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے موجودہ امیرشریعت کیخلاف جھارکھنڈ کی یونٹ سے "بغاوت” کا علم بلند کرنے کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ہندوستان ایکسپریس کو موصولہ اطلاع کے مطابق امارت شرعیہ کی جھارکھنڈ یونٹ میں خاصے لمبے عرصہ سے بے اطمینانی پائی جارہی تھی، جس کا نقطہ عروج پچھلے دنوں بغاوت کی شکل میں سامنے آیا،جس میں خبروں کے مطابق "مجلس علماءوائمہ” کے بینر تلے منعقد ایک میٹنگ میں مولانا نذر توحید مظاہری کو جھارکھنڈ کا امیرشریعت منتخب کرلیا گیا اورکہاجارہاہے کہ مولانا نذرتوحید نے امارت شرعیہ جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے رفقاء سے ‘بیعت’ بھی لینا شروع کردیا۔ حالانکہ مجلس علماءوائمہ جس کے بینر تلے یہ ساری سرگرمیاں انجام پائیں،اس نے اس معاملہ میں برائت کا اظہار کیا ہے اوریوں مولانا نذر توحید مظاہری کا غیر دستوری انداز میں جھارکھنڈ کے’ امیر’ کے طورپرانتخاب مجلس علماءوائمہ کیلئے بھی برائت کا سبب بن گیا ہے، جس کے بعد مولانا نذرتوحید مظاہری جھارکھنڈ کے امیرشریعت قرار پائیں گے بھی آیا نہیں،یہ نکتہ بھی توجہ طلب بن گیا ہے۔
اس پورے معاملہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ موجودہ امیر شریعت احمد ولی فیصل رحمانی اوران کی ٹیم نے مولانا نذرتوحید مظاہری کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ مولانا نذرتوحید مظاہری امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ اور اڈیشہ کی جانب سے تفویض کردہ ‘قاضی شریعت’ کے عہدہ پر حسب حال برقرار ہیں اور ان پر باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کے باوجود پھلواری شریف کے مرکزی دفترکی جانب سے کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مولانا نذر توحید بھی ‘قاضی شریعت’ کے عہدہ پر ہنوز فائز ہیں اورانہوں نے پھلوری شریف کے مرکزی دفتر سے کسی قسم کی لا تعلقی ظاہر نہیں کی ہے۔
جانکاروں کا کہنا ہے کہ ۸ ویں امیر شریعت کی حیثیت سے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے انتخاب کے بعد سے جھارکھنڈ کی یونٹ میں بے اطمینانی والی کیفیت پائی جارہی تھی۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دنوں جب جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا،تب بھی بعض ارکان کی عدم شرکت کے سبب کورم پورا نہ ہو سکا تھا اور حال میں جب شوریٰ کا اجلاس اڈیشہ میں منعقد ہوا،جب تو جھارکھنڈ کے شوریٰ کے ارکان نے امارت شرعیہ کے پھلواری شریف کے دفتر کے احکام سے دوری بنالی اور اطلاع یہ بھی ہے کہ اڈیشہ کے شوریٰ کے اجلاس میں جھارکھنڈ کا کوئی ایک رکن بھی شامل نہیں ہوا یوں شوریٰ کے دونوں اجلاس میں کورم پورا نہ ہوسکا،ایسا ذرائع کہتے ہیں۔ امارت شرعیہ کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیشہ کے شوریٰ کے اجلاس میں جھارکھنڈ کے رفقاء نے ‘بائیکاٹ’ کا فیصلہ لے کر واضح طورپر اشارہ دے دیا تھا کہ ناراضگی کس حد تک بڑھ رہی ہے،لیکن امارت شرعیہ کا پھلواری شریف کا دفتر اورخود امیر شریعت اور ان کی ٹیم نوشتہ دیوار کو پڑھ پانے میں ناکام رہی۔
سوشل میڈیا پر دبے لفظوں میں اس معاملہ پر کچھ ملت کے غم خوار اظہارخیال کررہے ہیں،لیکن امارت کے اندر پیدا ہونے والی "سر پھٹول” والی کیفیت کی حقیقی وجہ کیا ہے،اور کیوں جھارکھنڈ کے رفقاء نے پھلواری شریف کے اپنے مرکزی دفتر سے دوری بنائی اوراس کا نقطہ انجام کیا ہوگا،اس پر نہ تو امارت کے ذمہ داران کچھ کہہ رہے ہیں اور نہ ہی باغی گروپ اوراس کی پشت پناہی کرنے والے لوگ میڈیا کے سامنے منہ کھولنا چاہ رہے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے عاطف شبلی نے فیس بک پر مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ کی تقسیم کی کوششوں پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئےایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ’مفتی نذر توحید صاحب نے آج علماء کی مجلس میں امیر شریعت جھارکھنڈ کا اعلان کیا ہے اور انکے مؤیدین نے بروقت انکو امیر شریعت بھی منتخب کرلیا اور مفتی صاحب پر سیکڑوں علماء نے اعلانیہ بیعت بھی لے لی۔ سبحان اللہ۔امارت شریعہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کو ٹکڑے کرنے کا یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ملت پہلے ہی دوسرے مسائل میں گھری ہوئی ہے، حد درجہ منتشر ہے، اور اب مزید ایک فتنے کی داغ بیل ڈال دی گئی اور مزید ایک انتشار کا سبب بنا دیا گیا۔ امارت شرعیہ بہار جھارکھنڈ اڑیسہ کے مؤسس ابو المحاسن محمد سجاد رحمہ اللہ تعالی کی روح کو کس قدر تکلیف پہنچی ہوگی اس عمل سے، جنہوں نے سو سال پہلے امارت شرعیہ کا قیام اس لیے کیا تھا کہ ملت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے، اور ملت کو انتشار اور فتنوں سے محفوظ رکھا جائے’۔
عاطف شبلی مزید لکھتے ہیں کہ’آج چند عہدہ پرست لوگ محض اپنے مفاد کے لیے امارت شرعیہ جیسے عظیم ادارے کو دو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں جسے پوری ملت کے متحد ہونے کے لیے بنایا گیا تھا۔مفتی نذر توحید صاحب کو اپنے اس انتشار پیدا کرنے والے عمل سے رجوع کرنا چاہیے اور انہیں اپنی ذات سے امارت شرعیہ بہار جھارکھنڈ اڑیسہ کو مضبوط کرنے کے تئیں کوششیں کرنی چاہیے۔محض اپنے مفاد اور عہدے کی خاطر ایک عظیم الشان ادارے کو دو گروہوں میں منقسم کرنا ایک عظیم سانحہ ہے جس سے پوری ملت اسلامیہ ہندیہ متاثر ہوگی۔ اللہ ہم سب کو فتنہ پروری اور ملت میں انتشار پیدا کرنے والے اعمال سے محفوظ رکھے، اللہ ہمیں صحیح راہ دکھائے، باطل راہ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین’۔آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ‘میں جھارکھنڈ کے فرد کی حیثیت سے امارت شرعیہ جھارکھنڈ کے قیام کی شدید مخالفت کرتا ہوں۔ اور پرامید ہوں کہ مفتی نذر توحید صاحب بھی اپنے اس عمل سے رجوع کریں گے’۔
ہندوستان ایکسپریس کو ملنے والی خبروں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امارت شرعیہ کی جھارکھنڈ کی پوری ٹیم موجودہ امیر شریعت کے انتخاب کے بعد سے ہی ‘نا مطمئن’ رہی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ موجودہ امیر کی اطاعت کیلئے کسی بھی طور آمادہ نہیں ہے۔ اب ایسا بھی کہاجانے لگا ہے کہ ۸ ویں امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو جھارکھنڈ یونٹ کی تائید ممکن نہیں رہ گئی ہے اورموجودہ صورتحال میں یا تو جھارکھنڈ یونٹ باضابطہ اپنا الگ امیرشریعت کو منتخب کرنے کی سمت میں قدم بڑھائے گی یا پھر’امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ ‘ کو تقسیم سے بچانے کی واحد صورت کے طورپر موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کیلئے کوئی نئی ‘سیاسی چال’ چلے گی۔ سردست اتنی بات تو طئے ہے کہ اگرامارت شرعیہ کی جھارکھنڈ یونٹ پھواری شریف سے الگ ہوتی ہے اورموجودہ امیر شریعت کے خلاف بغاوت جھارکھنڈ کے لئے ایک عدد علاحدہ ‘امیر شریعت’ کے انتخاب کو یقینی بنالیتی ہے تو یہ بعید از امکان نہیں کہ کل کو اڈیشہ سے بھی ایسی ہی آواز اٹھے اور پھرمتھلانچل و سیمانچل کے لوگ بھی الگ الگ اپنا امیر شریعت منتخب کرنے کیلئے صدائیں بلند کرنے لگ جائیں۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف کی جانب سے بہرحال یہ ضرور کہا گیا ہے کہ”مجلس علماءوائمہ کے بینر تلے دوسرے ایجنڈے پر بلائی گئی میٹنگ میں مولانا نذر توحید مظاہری صاحب نے امارت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جس کو الحمدللہ وہیں پر مجلس علماءوائمہ اور وہاں پہنچے علماءکرام نے اسے فورا مسترد کر دیا اور اپنی برا ت کا بھی اظہار کیا۔ مسلمانوں کے خلاف اس سازش کو کامیاب ہونے سے پہلے ہی اللہ سبحانہ و تعالی نے اسے ناکام بنا دیا، الحمدللہ”۔امارت شرعیہ نے آگے یہ بھی کہا ہے کہ”مسلمانوں کو کسی سیاسی سازش کا شکار ہوئے بغیر اتحاد کے ساتھ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ سے جڑے رہنا وقت کا تقاضا اوراسلام کی تعلیم ہے،تمام مسلمان اتحاد واتفاق کے ساتھ زندگی گذاریں،کیونکہ طاقت وقوت کا اصل سرچشمہ اسلام کی بتائی ہوئی جماعتی زندگی میں پوشیدہ ہے، اس لئے حضرت امیر شریعت مدظلہ کی قیادت ورہنمائی میں نظام شرعی کے قیام اور تحفظ مسلمین کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں اورکسی اختلاف وانتشار پیدا کرنے والوں کی سازش کا شکار نہ ہوں”۔
یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ مخالفین کے ذریعہ موجودہ امیر شریعت پر یہ الزام عائد کیا جاتارہاہے کہ وہ اپنی قیادت دوسروں پر اس حد تک مسلط کرنے میں یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے جید علماء کی بھی کسی سرگرمی کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ ایسا بھی کہاجارہاہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا پچھلے دنوں جھارکھنڈ کا دورہ طئے تھا،جسے سبوتاز کرنے کی کوشش کی گئی،جس سے بھی جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی امارت شرعیہ کی ٹیم نالاں ہوئی۔
جھارکھنڈ سےتعلق رکھنے والے امارت شرعیہ کے رفقاء گوکہ کھل کر کچھ کہنے کو تیارنہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ضرورہیں،جو”آف دی ریکارڈ” یہ کہتے ہیں کہ’ ایک امیر کی اطاعت صرف کہنے کی بات ہے ،امارت شرعیہ میں ایک نہیں دو’امیر’ ہیں۔ مخالفین کا از راہ طنز ایسا کہنا غالبا اس وجہ سے ہے کہ موجودہ امیر شریعت کے برادر خاص امارت کی سرگرمیوں میں حصہ ہی نہیں لیتے بلکہ واقف کاروں کا کہنا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں موصوف بھی اپنی حاکمیت کا اظہار کرتے رہتے ہیں،جس کے سبب امارت شرعیہ پھلواری شریف کے دفتر میں بھی بے اطمینانی والی کیفیت کہیں نہ کہیں پائی جارہی ہے،جس کا اظہار حالیہ دنوں میں مولانا عادل فریدی (دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف) اور مولانا ابوالکلام قاسمی معاون ناظم امارت شرعیہ کے استعفوں کی شکل میں محسوس بھی کیا گیا۔ بہرحال دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ ملت اسلامیہ کا یہ اثاثہ متحد اور منظم رہ پاتا ہے آیا نہیں۔