اقوام متحدہ(یو این آئی/ایجنسیاں) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک اہم فیصلے میں پاکستان میں مقیم لشکر طیبہ کے نمبر دو لیڈرعبدالرحمن مکی کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی، جسے ہندوستان میں سات بڑے دہشت گردانہ حملوں کی سازش میں شامل ملزم مانا جاتا ہے داعش اور القاعدہ سے منسلک افراد، گروپوں اور اداروں سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں 1267 (1999)، 1989 (2011)، 2253 (2015) اور 2368 (2017) کی شق 2 اور 4 کے تحت عبدالرحمن مکی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
پاکستان کے شہر بہاولپور میں پیدا ہونے والے عبدالرحمن مکی پر کالعدم لشکر طیبہ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے، سازش کرنے، پرتشدد حملے کرنے اور حملوں میں حصہ لینے کے الزامات کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔
عبدالرحمن مکی کو 2000 میں لال قلعہ پر حملہ، جنوری 2008 میں رام پور میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے کیمپ پر حملہ، نومبر 2008 میں ممبئی دہشت گرد انہ حملہ، فروری 2018 میں سری نگر کے کرن نگر میں فدائین حملہ، اسی سال مئی میں ہونے بارہمولہ کے خان پورہ میں حملہ، سری نگر میں اخبار رائزنگ کشمیر کے چیف ایڈیٹر شجاعت بخاری کی ہلاکت اور ایل او سی میں دراندازی کی کوشش کے دوران کے آرمی کے ساتھ تصادم میں ایک میجر سمیت پانچ فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
عبدالرحمان مکی کو 2019 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ’مینٹینینس آف پبلک آرڈر‘ (نقص امن) کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور وہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے کے ایک مقدمے میں سزا پانے کے بعد جیل میں ہیں۔
عبدالرحمان مکی کالعدم جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ کے نائب امیر کے ساتھ ہی حافظ سعید کا بہنوئی بھی ہے اور برادر نسبتی بھی۔
عبدالرحمان مکی کا آبائی تعلق پنجاب کے شہر بہاولپور سے ہے جہاں وہ 10 دسمبر 1954 میں پیدا ہوا تھا۔ حافظ سعید سے قریبی رشتہ داری کے سبب ہمیشہ وہ اپنی جماعت کی طرف سے بڑے عہدوں پر فائز رہا۔
پاکستان میں گرفتاری سے قبل وہ اپنی جماعت کے بین الاقوامی تعلقات سے متعلق شعبے کے سربراہ تھا اور شوریٰ کے رکن بھی تھا۔
اس سے قبل امریکی حکومت بھی اسے ’بین الاقوامی دہشتگرد‘ قرار دے چکی ہے اور اس سے متعلق اطلاع فراہم کرنے پر 20 لاکھ امریکی ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کر چکی ہے۔
حافظ سعید اور عبدالرحمان مکی کی تنظیم لشکر طیبہ پر نومبر 2008 کے ممبئی حملوں سمیت متعدد دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے ۔تنظیم کی رہنماؤں پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ القاعدہ کے سابق سربراہ اُسامہ بن لادن سمیت دہشتگردی سے جُڑی دیگر شخصیات سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ کو جنوری 2002 اور جماعت الدعوۃ کو مئی 2019 میں کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں تنظیموں سے جُڑی ایک اور تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو بھی پاکستان نے مارچ 2019 میں کالعدم تنظیم قرار دیا تھا۔