پولیس کی تحویل میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں نے تشدد کا رُخ اختیار کرلیا
تہران(ایجنسیاں):ایران میں کرد حقوق کے علمبردارایک گروپ نے بتایا ہے کہ پولیس کی تحویل میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت پرشروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں نے تشدد کا رُخ اختیار کرلیا ہے اورسکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چار افراد ہلاک اورکم سے کم بیس زخمی ہوگئے ہیں۔ان میں ایک 10 سالہ لڑکی کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے یہ اطلاع دی ہے۔
بائیس سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی تہران میں پولیس کی حراست میں مبیّنہ تشدد سے ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہرے ملک کے متعدد شہروں میں پھیل گئے ہیں اور بعض علاقوں میں پرتشدد واقعات پیش آئے ہیں۔
حقوق گروپ ہینگاو نے بتایا کہ صوبہ کردستان میں امینی کے آبائی شہر سقزمیں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔مبیّنہ طورپران سب کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
ہینگاو نے بتایا کہ صوبہ کردستان کے شہردیواندریہ میں بھی پیر کے روز مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں سناندج کے کوثر اسپتال میں منتقل کے گئے دو زخمی شہری فواد قدیمی اور محسن محمدی ہلاک اور 15 دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔
حقوق گروپ نے یہ بھی بتایا کہ صوبہ مغربی آذربائیجان کے شہر بوکان میں سرمیں گولی لگنے سے 10 سالہ لڑکی کی حالت تشویشناک ہے۔ٹویٹرپر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ پیر کی رات دیر گئے متعدد شہروں میں مظاہرین کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اورانھوں نے حکومت اور اس کے اعلیٰ اختیارات کے مالک سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی کی ہے۔
مظاہرین نے دارالحکومت تہران میں گذشتہ روز پولیس کی ایک گاڑی الٹنے کی کوشش کی تھی۔ایران کے ایک ٹویٹراکاؤنٹ @1500tasvir کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ تہران میں مظاہرین ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کے ساتھ پولیس کی گاڑی کو الٹنے کی کوشش کررہے تھے۔
تہران ہی میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی توپ کے استعمال کی بھی ایک ویڈیو منظرعام پرآئی ہے۔ بعض مظاہرین اس گاڑی کی جانب پتھراؤ کررہے ہیں۔مظاہرین ٹویٹر پرجاری کردہ ایک اورویڈیو میں یہ نعرے بازی کررہے ہیں:’’ہم لڑیں گے،ہم مریں گے، ایران کو واپس لے جائیں گے‘‘۔
ٹویٹرپرشیئر کی جانے والی دیگر ویڈیوز میں شمالی شہر راشت اور شمال مشرقی شہرمشہد سمیت ایران کے دیگر علاقوں میں بھی پولیس تحویل میں نوجوان دوشیزہ کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں اوریہ احتجاج ملک کے دوردراز شہروں تک پھیل گیا ہے۔
العربیہ آزادانہ طور پران ویڈیوز کی صداقت کی تصدیق نہیں کرسکا۔اس سے قبل آج ایران کے صوبہ کردستان کے شہر دیواندریہ میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق دیواندریہ میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی ہے۔
یہ مظاہرے جمعہ کے روزمہسا امینی کی پولیس کے زیرحراست پُراسرار موت کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ مہسا امینی کوتہران میں نامناسب حجاب پرگشتی اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا اور وہ اس کے کچھ ہی دیر بعد کوما میں چلی گئی تھیں۔
تہران پولیس کا کہنا ہے کہ امینی کو حراست کے دوران میں اچانک دل کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا اور سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ گرفتاری سے قبل وہ صحت کے متعدد مسائل کا شکار تھیں۔
لیکن امینی کے والدین نے اس مؤقف کو مسترد کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے جانے سے پہلے ان کی بیٹی کو صحت کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔انسانی حقوق کے بعض سرگرم کارکنوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حراست کے دوران میں مہسا کی پٹائی کی گئی تھی جس سے انھیں شدید چوٹیں آئیں اور ان ہی زخموں کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے لیے حجاب کو 1979 کے انقلاب کے فوری بعد لازمی قراردیا گیا تھا۔ایران کے مذہبی حکمرانوں کے لیے اس کو سرخ لکیر سمجھاجاتا ہے۔اگر خواتین عوامی مقامات پر سخت ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں تو ایران کی اخلاقی پولیس المعروف گشت ارشاد کے کارندے انھیں ہراساں کرتے یاپھر گرفتارکرکے تھانے لے جاتے ہیں۔