نئی دہلی۔ (سہیل انجم) بزرگ صحافی، شاعر، مترجم اور متعدد کتب کے مصنف رضوان اللہ فاروقی کا آٹھ اکتوبر بروز ہفتہ نئی دہلی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 91 سال تھی۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ کچھ دنوں سے علیل چل رہے تھے۔ انھوں نے ہفتے کی صبح تقریباً نو بجے آخری سانس لی۔ سینئر صحافی سہیل انجم کے مطابق رضوان اللہ فاروقی کے نواسے محمد طارق نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں سے ان کو سانس لینے میں دشواری تھی۔ کمزوری بھی بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ان کی تدفین ہفتے کی سہ پہر تین بجے شاہین باغ، اوکھلا کے قبرستان میں ہوئی جس میں موسم کی خرابی اور مسلسل بارش کے باوجود علاقے کے اہل علم نے شرکت کی۔
رضوان اللہ نے اپنی صحافت کا آغاز آزادی سے قبل کلکتہ کے روزنامہ ’’عصر جدید‘‘ سے کیا تھا۔ بعد میں وہ اخبار کے نیوز ایڈیٹر ہوئے۔ انھوں نے احمد سعید ملیح آبادی کے اخبار روزنامہ ’’آزاد ہند‘‘ میں بھی ایک عرصے تک کام کیا تھا۔ انھوں نے ان دونوں اخباروں میں مختلف حیثیتوں میں خدمان انجام دی تھیں۔ اسی دوران انھوں نے کلکتہ میں واقع امریکی سفارت خانے کے دفتر یو ایس آئی ایس میں جزوقتی کام شروع کر دیا تھا۔ 1975 میں دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے میں اردو ایڈیٹر کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ جہاں انھوں نے 1992 تک اردو ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سبکدوش ہونے سے کچھ پہلے انھوں نے ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر میں اپنا مکان تعمیر کرایا اور پھر وہیں منتقل ہو گئے۔
رضوان اللہ فاروقی نے اپنی پوری زندگی اردو صحافت کی خدمت میں گزاری۔ اس عمر میں بھی ان کی تصنیفی سرگرمیاں جاری تھیں۔ کلکتہ کی صحافت پر ان کی کتاب ’’کلکتہ کی اردو صحافت اور میں‘‘ کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ 2020 میں ان کی خود نوشت ’’اوراق ہستی‘‘ شائع ہوئی جو 488 صفحات پر مشتمل ہے۔ جبکہ اسی سال یعنی 2022 میں ان کی کتاب ’’تبصرات کتب‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں بے ادبیات، اوراق مصور، متاع سحر، ہمارے گاؤں ہمارے لوگ اور عکس خیال قابل ذکر ہیں۔ جبکہ انگریزی میں چھ کتابیں شائع ہوئیں۔ وہ اردو، انگریزی اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے امریکی سفارت خانے سے شائع ہونے والے رسالے ’’اسپین‘‘ کے لیے طویل عرصے تک مضامین کے ترجمے کیے اور انگریزی ہفت روزہ ’’ملی گزٹ‘‘ میں کالم لکھے۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی پروفیسر فیضان اللہ فاروقی کا 2020 میں کرونا وبا میں انتقال ہوا۔ وہ جے این یو سے عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ڈاکٹر زہرا فاروقی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ فارسی میں استاد ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔
رضوان اللہ فاورقی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے سہیل انجم نے کہا کہ ان کا انتقال اردو صحافت اور زبان و ادب کا ناقابل تلافی نقصان تو ہے ہی میرا ذاتی نقصان بھی ہے۔ انھوں نے تنگ دستی کو گوارہ کیا لیکن اپنے اصولوں سے سمجھوتہ گوارہ نہیں کیا۔ انھوں نے وہی لکھا جسے سچ سمجھا۔ انھوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی کہ ان کی تحریروں سے حاکمان وقت کی جبینیں شکن آلود ہو جائیں گی۔ ان کا انتقال اردو صحافت کا ایک بڑا خسارہ ہے۔