بنگلہ دیشی صحافی سید بدرالحسن نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مابین علمی تبادلے خاص طورپر یونیورسٹی کی سطح پرتبادلے کی ضرورت پر زور دیا
نئی دہلی(پریس ریلیز) شعبہ سیاسیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ’جنوب ایشیا میں تاریخ کی تحریک‘ کے موضوع پر اکیس جنوری دوہزار تئیس بروز سنیجر کو میر انیس ہال میں خصوصی خطبہ منعقد کرایا۔بنگلہ دیش کے ممتاز صحافی سید بدر الحسن کو اس خطبے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔شعبہ سیاسیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر محمد مسلم خان نے مہمانان جناب سید بدر الحسن،پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،پروفیسر اتل انیجا،ناظم اور مہمان اعزازی جناب رنجن مکرجی کی خدمت میں پودے پیش کر کے ان کا خیر مقدم کیا۔
خصوصی خطبے کی صدار ت پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔انھوں نے مہمان مقرر کا یونیورسٹی میں خیر مقدم کیا اور خطبے کی تھیم پر اظہار خیال کیا۔اپنے استقبالیہ خطبے میں انھوں نے علاقائی تاریخ کی اہمیت پر تقریر کی اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں علاقائی ممالک کے تعمیری تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے وسیع تر تفہیم کے فروغ کے لیے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مابین علمی تبادلے خاص طورپر یونیورسٹی کی سطح پرتبادلے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہندو اخبار کے سابق سینئر صحافی اور سردست انڈیا نیریٹیو ایک آن لائن نیوز پورٹل کے مدیرجناب اتل انیجا نے خطبے کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔جناب انیجا نے جنوب ایشیا کے حالیہ سیاسی منظر نامے پر گفتگوکرتے ہوئے ٹاک کے لیے فضا تیار کی۔ سابق ایئر کوموڈورآئی اے ایف او ر پرسار بھارتی کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جرنل جناب رنجن مکرجی نے پروگرام میں بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی۔
جناب سید بدرالحسن نے اپنی گفتگو کا آغازاس بات سے کیا کہ بنگلہ دیش کو جیسی اہمیت ملنی چاہیے تھی ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا میں اس طرح کی مناسب نمائندگی نہیں ملتی۔یہ شمال مشرقی ریاستوں خاص طور سے مغربی بنگا ل تک محدود ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان بنگلہ دیش کے لیے کافی اہمیت رکھتا ہے۔ہندوستا ن ایک بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا سود مند ہے اور یہ اس وقت اور اہم ہوجاتاہے جب بات جنوب ایشیا کی ہو۔
جناب احسن نے بنگلہ دیشن کے مشکل اور نامساعد حالات سے نکلنے اور خوں آشام تحریک آزادی سے ابھرنے کی بھی بات کی۔انھوں نے سامعین کو بتایاکہ انیس سو اکہتر سے انیس سو چوہتر کے درمیان بنگلہ دیش سخت بحران کا شکار تھا۔ملک نے فوجی ڈکٹیٹر شپ کا عتاب بھی جھیلا ہے۔انھوں نے خصوصی طورپر بنگلہ زبان پر بنگلہ دیشی قومیت کے متعلق اظہار خیال کیا۔انھوں نے عوام سے عوام کے رابطے پر زورکے ساتھ ساتھ جنوب ایشیا میں خاص طورپر ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی اور کاروباری تعلقات بڑھانے پر زور دیا۔انھوں نے ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر ترقیاتی مقاصد کے ساتھ آگے بڑھنے پر زوردیا۔انھوں نے ایس اے اے آرسی جیسے علاقائی گروپوں پر بھی روشنی ڈالی۔انھوں نے کہاکہ بعض وجوہ کی وجہ سے سارک اپنے مقاصدحاصل نہیں کرسکا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اگر سارک سود مند ثابت نہیں ہوتا ہے تو علاقائی ترقی کے لیے کوئی دوسرامتبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اپنی تقریرکے اختتام پر انھوں نے سامعین کے متعدد سوالات اور ان کے استفسارات کے اطمینان بخش جوابات دیے۔شعبہ سیاسیات کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کرشنا سوامی دارا کے اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔