نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا ہے کہ جن خواتین کو طالبان کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر نے کے لئے پکڑا گیا تھا۔ انکو تحویل کے دوران اذیتیں دی گئیں اور دوسری شدید بد سلوکیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان خواتین نے بتایا کہ انہیں انکے خاندانوں سمیت جن میں بچے بھی شامل تھے بلا وجہ پکڑا گیا۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں، مارا پیٹا گیا، خطرناک حالات میں بند رکھا گیا، قانونی چارہ جوئی کی اجازت نہیں دی گئی ا، رہائی کے لئے نا زیبا شرائط رکھی گئیں ، ان کے علاوہ دوسری زیادتیاں بھی کی گئیں۔ حکام نے پکڑے گئے مرد رشتہ داروں کو الیکٹرک شاک دیے۔ خواتین نے دوران تحویل اپنے جو تجربات بتائے ہیں وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ طالبان اپنی تحویل میں خواتین احتجاجیوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اور یہ احتجاجی تحریک کو خاموش کرنے کے لئے طالبان کی کوششوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی خبر کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی خواتین کے حقوق کی ایسو سی ایٹ ڈائیرکٹر حیدر بار کہتی ہیں کہ ان افغان خواتین کی ناقابل یقین بہادری بیان سے باہر ہے جو طالبان کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اور ان خواتین کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ طالبان ان کی سرگرمیوں سے کس قدر خوفزدہ ہیں اور ان کو خاموش کرنے کی کوشش میں طالبان کس قدر بربریت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
طالبان نے فروری دو ہزار بائیس میں کابل میں ایک مکان پر چھاپے کے دوران تین خواتین کو گرفتار کیا اور انہیں اور انکے خاندانوں کو کئی ہفتے تک وزارت داخلہ کی عمارت میں بند رکھا۔انہیں بظاہر خواتین کے حقوق کے لئے احتجاج کی منصوبہ بندی میں شامل ہونے اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے الزام میں پکڑا گیا۔ رہائی کے بعد وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔
پندرہ اگست دو ہزار اکیس کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ادھر خواتین نے بھی طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہفتے ہی سے سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اور یہ احتجاج وہ ان سنگین خطرات کے باوجود کرتی رہیں جو انہیں درپیش تھے۔
ان احتجاجی مظاہروں پر طالبان کا رد عمل شروع ہی سے جابرانہ تھا۔ وہ احتجاج کرنے والی خواتین کو زدوکوب کرتے تھے،مظاہروں میں ہر طرح سے خلل ڈالنے کے ساتھ ان صحافیوں کو بھی گرفتار کرتے رہے جو ان مظاہروں کی خبریں شائع یا نشر کرتے تھے۔حیدر بار کہتی ہیں کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو طالبان حکمرانی کے بعض انتہائی سخت رویّوں کا سامنا ہے ۔بار نے کہا کہ یہ خواتین افغانستان میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے انتہائی مشکل جنگ کی قیادت کررہی ہیں۔ بد قسمتی سے عالمی برادری نہ ان کے ساتھ کھڑی ہوئی اور نہ اس نے ان مسائل پرخاطر خواہ توجہ دی ہے۔












