نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو) اردو ادب کی دنیا کی مشہورشخصیت اورمعروف شاعر طارق متین آج بروز جمعہ بعد نماز مغرب مونگیر میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر تقریباً 57 سال تھی۔ اردو ادب اور اردو شاعری کی دنیا سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ مرحوم طارق متین کے انتقال کی خبر ملتے ہی علاقے میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ مرحوم کے انتقال سے اردو ادب کی دنیا کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ طارق متین لکھمنیاکے رہائشی تھے۔ان کے والدتاجر متین الدین لکھمنیاکے معروف چمڑہ کاروباری تھے۔
گزشتہ تیس برسوں میں جن نئے شعرا نے اپنی ادبی پہچان قومی سطح پر قائم کی، اُن میں طارق متین کا نام سرِ فہرست ہے۔10 جولائی 1968 کو بیگوسرائے کے لکھمینیا میں پیدا ہونے والے طارق متین نےانگریزی زبان و ادب میں ایم۔اے کیا تھا۔1983 سے اُنھوں نے شاعری شروع کی تھی۔ 1997 میں موصوف کا شعری مجموعہ مشک سخن منظرعام پر آیا جبکہ، 2008 میں قندیلِ ہنرکی اشاعت عمل میں آئی، 2016 میں غزال درد طبع ہوا۔گذشتہ کچھ برسوں سے مختلف طرح کے امراض کے سبب موصوف متحرک نہیں رہ گئے تھے،بلکہ ایک طرح سے گوشہ نشینی ان کا مقدر بن گئی تھی۔
طارق متین کے شعری مجموعوں میں "ریاضت نیم شب”،”قندیل ہنر”،”غزال درد”اور”مشک سخن”قابل ذکر ہے۔موصوف نے چودھری حسان الزماں کے ساتھ مل کر لکھمنیا سے ہی ایک ششماہی ادبی جریدہ 1992میں شروع کیا تھا،جسے غیر معمولی مقبولیت ملی تھی۔اُس رسالہ کو اپنے عہد کا مقبول ترین "ششماہی جریدہ”ہونے کا بھی شرف حاصل رہا،جس میں ملک اور بیرون ملک کی تمام ادبی ہستیوں کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔بدقسمتی یہ رہی کہ یہ رسالہ لمبی عمر نہ پاسکااورنئی صدی کی آمد سے قبل ہی مرحوم ہوگیا۔مرحوم نے پٹنہ میں”علم و ادب پبلی کیشنز” کی بھی بنیاد رکھی تھی،لیکن اپنی غیرمستقل مزاجی کے سبب موصوف اس ادارہ کو بھی نہ چلاسکے اوریوں "علم و ادب پبلی کیشنز”نامی یہ ادارہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی بے موت مر گیا۔
طارق متین کی شاعری نئی نسل کے درمیان ہی قابل قدر تصور نہیں کی گئی بلکہ شعر و ادب کے نبض شناس افراد نے بھی ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا اورانہیں بھرپور شناسائی ملی۔”حلقہ ادب” لکھمنیا کے بینر تلے کئی کامیاب مشاعروں کے انعقاد کے حوالے سے بھی طارق متین کی سرگرمیاں لائق تحسین قرار پائیں۔
طارق متین کی شہرت اردو شاعری کی دنیا میں بہار سے ملک گیر سطح پر مشہور تھی۔ ؒخاندانی ذرائع کی اطلاع کے مطابق طارق متین کو نماز جمعہ کے بعد راحت باغ قبرستان لکھمنیا میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ مرحوم طارق متین نے بہت پہلے لوک جن شکتی پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے اور ضلع پریشد کا الیکشن لڑا تھا۔ طارق متین کے گلدستہ غزل سے چند غزلیں پیش خدمت ہیں:
میں حبیب ہوں کسی اور کا مری جان جاں کوئی اور ہے
سر داستاں کوئی اور ہے پس داستاں کوئی اور ہے
یہ عذاب دربدری میاں ہے ازل سے میرا رفیق جاں
میں مکین ہوں کہیں اور کا مرا خاک داں کوئی اور ہے
یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے کسے کتنی قوت پر ملی
ترا آسماں کوئی اور ہے مرا آسماں کوئی اور ہے
یہ جو زندگی کی ہیں گتھیاں یہ سلجھ کے بھی نہ سلجھ سکیں
ہیں اگرچہ وجہ سکون ہم یہاں شادماں کوئی اور ہے
مجھے شاعری کا ہنر ملا مجھے گنج لعل و گہر ملا
مرے حرف میں مرے لفظ میں جو ہے بے کراں کوئی اور ہے
۔۔۔۔۔۔
اپنے دکھوں کا ہم نے تماشہ نہیں کیا
فاقے کیے مگر کبھی شکوہ نہیں کیا
بے گھر ہوئے تباہ ہوئے در بدر ہوئے
لیکن تمہارے نام کو رسوا نہیں کیا
گو ہم چراغ وقت کو روشن نہ کر سکے
پر اپنی ذات سے تو اندھیرا نہیں کیا
اس پر بھی ہم لٹاتے رہے دولت یقیں
اک پل بھی جس نے ہم پہ بھروسہ نہیں کیا
اس شخص کے لیے بھی دعا گو رہے ہیں ہم
جس نے ہمارے حق میں کچھ اچھا نہیں کیا
حالانکہ احترام سبھی کا کیا مگر
ہم نے کسی کو قبلہ و کعبہ نہیں کیا
طارق متینؔ کھاتے رہے عمر بھر فریب
لیکن کسی کے ساتھ بھی دھوکا نہیں کیا
گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے
باہر آ جاؤں تو تنہائی برا مانتی ہے
میری نادانی دکھاتی ہے کرشمے جب بھی
صاحب وقت کی دانائی برا مانتی ہے
ماہ و انجم کی سواری پہ نکلتا ہوں جب
دشت افلاک کی پہنائی برا مانتی ہے
بحر کی تہہ میں اترتا ہوں خزانوں کے لئے
یہ الگ بات کہ گہرائی برا مانتی ہے
جب مرے زخم مہکتے ہیں تو طارقؔ صاحب
ابن دوراں کی مسیحائی برا مانتی ہے
۔۔۔۔۔
غم کی دیوار کو میں زیر و زبر کر نہ سکا
اک یہی معرکہ ایسا تھا جو سر کر نہ سکا
دل وہ آزاد پرندہ ہے کہ جس کو میں نے
قید کرنا تو بہت چاہا مگر کر نہ سکا
دور اتنی بھی نہ تھی منزل مقصود مگر
یوں پڑے پاؤں میں چھالے کہ سفر کر نہ سکا
زندگی میری کٹی ایک سزا کے مانند
چین سے دنیا میں پل بھر بھی بسر کر نہ سکا
آسماں پر وہ گیا قلب زمیں میں اترا
کون سا کام ہے ایسا جو بشر کر نہ سکا
بات جیسی بھی ہو تاثیر ہے شرط لازم
شعر وہ کیا جو کسی دل میں بھی گھر کر نہ سکا
۔۔۔۔۔۔
گوشہ نشیں ہیں انجمن آرا نہیں ہیں ہم
لیکن یہ معجزہ ہے کہ تنہا نہیں ہیں ہم
جب سے ملی ہے دولت عرفان و آگہی
دنیا میں رہ کے شامل دنیا نہیں ہیں ہم
مشکل نہیں ہے دوستو تسخیر کائنات
افسوس بس اسی کا ہے یکجا نہیں ہیں ہم
فردا کا خواب وقت کی آواز ہیں جناب
اک یادگار عہد گزشتہ نہیں ہیں ہم
حاصل ہے ہم کو لذت توبہ خطا کے بعد
بہتر ہے آدمی ہیں فرشتہ نہیں ہیں ہم
شاداب ہے ہمیں سے ترا گلشن وجود
دریا ہیں جان آرزو صحرا نہیں ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔
چرچا ہے بہت جس کا یہاں نام بہت ہے
در پردہ وہی شخص خوں آشام بہت ہے
اتنا ہی ترے قرب کا ہنگام بہت ہے
اک شام جو مل جائے وہی شام بہت ہے
کافی ہے بہلنے کو تری یاد کی دولت
اے راحت دل تیرا یہ انعام بہت ہے
ہر موڑ پہ دھوکا ہے یہاں کیسے بسر ہو
یہ دہر پر از کلفت و آلام بہت ہے
دو گھونٹ سے کیا ہوگا ابھی اور پلا تو
اے پیر مغاں تلخیٔ ایام بہت ہے
بس تھوڑی سی مہلت تو مجھے اور عطا کر
ہاں اے ملک الموت ابھی کام بہت ہے
کچھ بات یقیناً ہے تری ذات میں طارقؔ
اس شہر میں آیا ہے تو کہرام بہت ہے