جاوا(ایجنسیاں):انڈونیشیا کے سب سے بڑے جزیرے جاوا میں زلزلے میں کم از کم 162 افراد ہلاک اور سیکنڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ میں یہ اطلاع دی گئی ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پانچ اعشاریہ چھ کی شدت کے اس زلزلے کا مرکز سطح زمین سے محض دس کلومیٹر کی گہرائی پر تھا اور اس سے سب سے ز یادہ متاثر مغربی جاوا کا قصبہ سیانجور ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قصبے میں کچھ عمارتیں مکمل مسمار ہو گئی ہیں۔
سرکاری حکام نے خبردار کیا ہے کہ مزید جھٹکوں یا آفٹر شاکس کا امکان موجود ہے اور خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جس مقام پر زلزہ آیا ہے وہ ناقص مکانات والا ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں لینڈ سلائیڈِنگ یا زمین سرکنے کے امکانات زیادہ ہیں۔رضاکار ٹیمیں لوگوں کو علاقے سے نکالنے میں مدد کر رہی ہیں اور مقامی ذرائع کے مطابق اب تک ایک خاتون اور اس کے ننھے بچے کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا ہے۔ مغربی جاوا کے گورنر رضوان کامل کے مطابق اب تک 56 افراد کی ہلاکت اور سات سو سے زیادہ کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
گورنر کا کہنا تھا کے چونکہ ’بہت سے لوگ‘ ابھی تک علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں‘ اور ایک مقام تک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رسائی ممکن نہیں ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
گورنر سے قبل سیانجور کی مقامی انتطامیہ کے سربراہ ہرمن سوہرمان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ مکانوں کا ملبے گرنے سے زخمی ہوئے اور اکثر کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایمبولینس گاڑیاں مسلسل زخمیوں کو ہسپتال پہنچا رہی ہیں لیکن ابھی تک کئی خاندانوں کو قصبے سے نہیں نکالا جا سکا ہے۔
ہرمن سوہرمان کا مزید کہنا تھا کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مزید امدادی کارکنوں کی ضرورت ہے اور علاقے میں بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر زخمیوں کے آپریشن نہیں کر پا رہے ہیں۔
قدرتی آفات سے بچاؤ کے قومی محکمہ کے علاقائی دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیانجور میں درجنوں عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں جن میں ہسپتال کے علاوہ ایک رہائشی دینی مدرسہ بھی شامل ہے۔ زلزلے کے جھٹکے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور، دارالحکومت جکارتہ میں بھی محسوس کیے گئے جہاں لوگوں کو بلند عمارتوں سے نکالنا پڑا۔
زلزلے کے جھٹکے مغربی انڈونیشیا کے معیاری وقت کے مطابق پیر کو دن ایک بجکر 21 منٹ پر شروع ہوئے جس پر لوگ دفاتر سے بھاگ کر باہر نکل آئے۔
ایک وکیل، مایادتا ولاؤ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں بیٹھا کام رہا تھا کہ فرش ہلنے لگا۔ میں واضح طور پر جھٹکے محسوس کر سکتا تھا اور میں نے کام چھوڑ دیا، لیکن جھٹکے مزید تیز ہو گئے اور یہ جھٹکے کافی دیر جاری رہے۔‘
قریبی دفتر میں ملازم ایک اور شحص، احمد رضوان کا کہنا تھا کہ ’ہم جکارتہ میں رہنے والوں کے لیے ایسے جھٹکے معمول کی بات ہیں، لیکن اس مرتبہ لوگوں میں خوف وہراس دیکھ کر ہم بھی پریشان ہو گئے۔‘
یاد رہے کہ انڈونیشیا میں زلزلے آتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈویشیا بحرالکال میں ’آگ کے دائرے‘ پرواقع ہے جہاں زمین کی پرتیں آپ میں ٹکراتی رہتی ہیں۔ سنہ 2018 میں سمندر میں ہولناک زلزے اور اس کے نتیجے میں آنے والی سونامی میں دو ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔