نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): ریاست مہاراشٹرا میں ایک غار سے دسیوں ہزار سال پرانے پتھر کے اوزار برآمد ہوئے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کئی برسوں کے دوران ماضی کی ایک نامعلوم تہذیب کی چٹانیں ملی ہیں۔ اب اسی خطے میں ایک غار ان قبل از تاریخ کے فن پاروں کے تخلیق کاروں اور ان کی زندگیوں پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے معاون ثابت ہو رہی ہے۔ بی بی سی مراٹھی کے میوریش کونور کے مطابق مغربی مہاراشٹر کے کونکن علاقے میں کولوشی گاؤں سے تقریباً 10 کلومیٹر دور واقع یہ غار گذشتہ سال محققین کے ایک گروپ نے دریافت کیا تھا۔ اس سال کے شروع میں ہونے والی کھدائی سے غار میں پتھر کے کئی اوزار سامنے آئے جو دسیوں ہزار سال پرانے ہیں۔
مہاراشٹر کے محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ ڈاکٹر تیجس گرگے کہتے ہیں کہ ‘دنیا میں کہیں بھی ہمیں اس قسم کا ‘راک آرٹ ‘ نہیں ملتا۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ نوادرات ہمارے آباؤ اجداد کے رہنے کے طریقے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ غار، جو سندھو درگ کے ایک ویران جنگل میں واقع ہے، اُن محققین نے دریافت کیا جو قریبی علاقوں میں چٹانوں کی نقاشی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ کھدائی کا کام دو مراحل میں کیا گیا، جس کے دوران ماہرین آثار قدیمہ نے غار کے اندر دو خندقیں کھودیں۔
پتھر کے کئی بڑے اور چھوٹے اوزار ملے ہیں جو میسولیتھک دور یعنی پتھر کے پرانے دور (مڈل سٹون ایج) سے تعلق رکھتے ہیں۔
روتیوج آپتے، جو کونکن پیٹروگلیفز یعنی پتھروں پر نقش و نگار پر تحقیق کر رہے ہیں اور کھدائی کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے کا کہنا ہے کہ ‘مائیکرو لیتھس یا پتھر کے چھوٹے اوزار تقریباً 10,000 سال پرانے ہیں جبکہ بڑے اوزار تقریباً 20,000 سال پرانے ہو سکتے ہیں۔‘
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر پارتھ چوہان کا کہنا ہے کہ کیمیائی عمل کا استعمال کسی بھی باقیات کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جو نوادرات کے کناروں پر موجود ہو سکتی ہے۔ اس سے اس بات کا تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ اس چیز کو کس چیز کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ان پتھر کے اوزاروں کا صحیح وقت معلوم کرنے میں چند ماہ لگیں گے۔ لیکن ابھی، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نوادرات 10,000 سے لے کر 48,000 سال پرانے ہو سکتے ہیں۔
مہاراشٹر کا پس منظر سے بھرپور کونکن سطح مرتفع جہاں یہ غار دریافت ہوا تھا وہ بھی قبل از تاریخ کے فن کا ایک خزانہ ہے۔ ماضی میں محققین نے یہاں کے کئی دیہاتوں میں مٹی کی تہوں کے نیچے چھپے جانوروں، پرندوں، انسانی اعداد و شمار اور جیومیٹریکل ڈیزائن کے پتھروں پر نقش و نگار دریافت کیے ہیں۔
اب تک سندھو درگ اور قریبی ضلع رتناگیری کے 76 گاؤں میں 132 مقامات پر 1700 پیٹروگلیفس یعنی چٹانوں پر نقش و نگار ملے ہیں۔
پونے میں مقیم آرٹ مورخ اور مصنف سائی پالاندے داتار کا کہنا ہے کہ یہ نقش و نگار زمانہ ماقبل تاریخ کے انسان کی زندگی اور عادات کے بارے میں بڑی معلومات پیش کرتے ہیں۔
وہ رتناگیری ضلع کے بارسو گاؤں کے قریب پائی جانے والی انسانی شکل کی ایک مشہور چٹان کی تراش خراش کی مثال دیتی ہیں۔
نقش و نگار ایک چٹان پر ابھری ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک مرد شخصیت ہے جس نے دونوں ہاتھوں میں شیر اور دیگر جنگلی جانور پکڑے ہوئے ہیں۔
سائی پالاندے داتار کہتی ہیں کہ اس نقش و نگار میں ہم آہنگی کا ایک حیرت انگیز احساس ہے، جو مہارت کے اعلیٰ درجے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کے مطابق تصویر میں انسان کے جانوروں کے ساتھ رشتے کو بھی دکھایا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہڑپہ تہذیب کی مہروں، انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک جو کہ برصغیر پاک و ہند میں پروان چڑھی، سے بھی انسان کے جانوروں کے ساتھ قریبی تعلق کی عکاسی ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان مہروں میں شیر اور بھینس جیسے بڑے جانوروں اور انسانوں کا شکار کرنے والے جانوروں کی تصاویر ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قبل از تاریخ پتھروں کے نقش و نگار سے جڑی پراسراریت ابھی کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں مدد نہیں دے رہی ہے لیکن یونیسکو ٹیگ یا درجہ بندی کے ذریعے دنیا بھر سے دریافت ہونے والے قدرتی اور ثقافتی نوادرات کو انسانیت کے لیے ان کی ’آفاقی قدر ` کے اعتبار سے الگ کیا گیا ہے، کو انھیں نسلوں تک محفوظ رکھنے میں مدد کر سکتی ہے۔
کونکن کے علاقے میں پتھروں کی تراش خراش کی آٹھ جگہیں پہلے ہی یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی عارضی فہرست کا حصہ ہیں، جو کسی بھی ثقافتی لحاظ سے اہم مقام کے لیے ٹیگ حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔