نوشادسنگیت ڈیولپمنٹ سوسائٹی کے زیر اہتمام ڈرامہ’حبہ خاتون‘کی دلکش پیشکش
لکھنؤ:ہندی اور اردو کے ادبی اورثقافتی ڈراموں کے ذریعے سماج کی اصلاح کا کام بخوبی لیاجاسکتاہے اور لیاجاتا بھی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ شہر ادب لکھنؤ میں اردو-ہندی ڈراموں سے متعلق مختلف مقامات پر ورکشاپ منعقد ہوں تاکہ ڈرامہ میں نئے فنکار آسکیںاوراس کے ذریعے سماج کی اچھائیوں ،برائیوں اورمحبتوںکوناظرین کے سامنے اجاگر کیاجاسکے۔اسلئے ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ موجودہ دور کے ادیب نئے طرزوفکرکے ڈرامے بھی تشکیل دیں تاکہ قدیم وجدیم کا بھی سنگم قائم ہوسکے۔انہوں نے مزید کہاکہ غیر ملکی ڈراموں کے مقابلے مٹی سے وابستہ اپنی روایات اورتہذیب وثقافت کا خوبصورتی سے استعمال اسٹیج ڈراموں کو یقینی طور پر فروغ دیگا۔مذکورہ خیالات کااظہار نوشاد سنگیت ڈیولیپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے منعقدڈرامہ ’حبہ خاتون‘ کی پیش کش میں مہمان خصوصی معروف فلم اداکار رضامراد نے کیا۔ڈرامہ کی پیشکش کلامنڈپم آڈیٹورم ،بھاتکھنڈے قیصرباغ میں کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنی ثقافت اور روایات ہمارے لئے زیادہ اہم ہیں۔ ڈرامہ’حبہ خاتون‘کشمیر کی خوبصورتی،اورسچی محبت وروایات پرمبنی ایک شانداراورپُرکشش ڈرامہ ہے۔ ڈرامہ میںدکھایاگیاکہ حبہ خاتون نے روح فرساشاعری کی جس نے وادی میں کافی مقبولیت حاصل کی۔اپنے معاصرین مرد شعرا حضرات کے مقرر کردہ شاعرانہ اصولوں کے بر خلاف حبہ خاتون شاعری کی غیر رومانوی پارسا روایت کو نہیں اپنایا۔ ان کی بیش تر شاعری شیریں اور پائیدار رویوں کا امتزاج ہے جس نے انفرادی طور پر کشمیر کے عام لوگوں کے دلوں کو چھو لیا۔ ایسے وقت میں جب شاعری انفرادیت میں محدود تھی ، حبہ خاتون نے اپنے ذاتی تجربات و احساسات کو معاشرے کی جذباتی تکمیل کا حصہ بنایا۔ ڈرامے کے ذریعے سماج کی عکاسی کی گئی ہے۔
نوشاد سنگیت ڈیولیپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے منعقد ڈرامہ’حبہ خاتون‘ نے ناظرین کادل موہ لیااورپورے وقت ڈرامہ کے کرداروں نے اپنی اداکاری سے باندھے رکھا۔ اس موقع پرمہمانان سبکدوش آئی ایس افسر ڈاکٹر انیس انصاری،سیاسی وسماجی کارکن سابق ایم ایل سی سراج مہدی اور ڈاکٹر وکرم سنگھ ،ڈاکٹرنزہت فاطمہ،سیدبلانورانی،محمداسلم ممبئی، وامق خان،ضیاء اللہ صدیقی ،حسن کاظمی، نواب جعفرمیرعبداللہ ،اورعمارانیس نگرامی سمیت متعدد فنکاروں،ادیبوں نے شرکت فرمائی۔
مہمان ذی وقارسراج مہدی ،ڈاکٹرارتضیٰ کریم اورڈاکٹرانیس انصاری نے کہا کہ آج تھیٹر پہلے کی نسبت بڑا ہوچکا ہے ، اس کا مثبت استعمال کرنا اچھا ثابت ہوگا۔سراج مہدی نے اطہر نبی کے ذریعہ ادب کے حوالے سے کئے گئے کارہائے نمایاں کوسراہاکہ کس طرح انہوں نے،مشاعروں،سمیناروں اور ڈراموں کے ذریعہ لکھنوی تہذیب کو زندہ رکھا ہواہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہندی-اردو اور قومی یکجہتی کے فروغ میں بھی اطہر نبی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دیگر مہمانوں میں بلال نورانی،ضیاء اللہ صدیقی،رفیع احمد،اورڈاکٹریاسرجمال وغیرہ نے بھی ڈرامے کے حوالے سے خیالات کااظہارکیا۔
اس سے قبل ، سوسائٹی کے صدر اطہر نبی نے کہا کہ یہ ان کیلئے بڑے فخرکی بات کہ آج اہم شخصیات اورفنکاروں،ادیبوں اورشاعروں نے ڈرامے میںشرکت فرماکرحوصلہ افزائی کی۔ ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں اور انہوں نے موسیقار نوشاد کے ساتھ گزارے ہوئے اپنے خوب صورت لمحات کو یاد کرکے ان کوخراج عقیدت پیش کی،اطہرنبی نے کہا کہ نوشاد جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامہ حبہ خاتون کا معیار انفرادیت رکھتا ہے اسلئے کہ وہ ایک متحرک فنکار کو ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے کہانی یا کسی واقعے سے جوڑتا ہے۔ آج ملک میں چھ سو سے زیادہ یونٹ ڈرامہ کے میدان میں مستقل طور پر سرگرم عمل ہیں۔آخرمیں تمام مہمانان،فنکاروں اورتمام ذمہ داران کاشکریہ ضیاء اللہ صدیقی نے اداکیا،اورڈرامے کی کامیابی سہرہ انکے سرباندھا۔
ڈرامہ حبہ خاتون میں’بلبل کشمیر ‘ حبہ خاتون اپنی بے پناہ خوبصورتی کے باعث زون(چاند) کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ یہ ملکۂ حسن وادیٔ کشمیر کے صوفی شاعروںمیںسے ایک تھیں جو کلاسیکی دور کے کشمیر کے رومانویت کی ایک اہم شناخت تھیں۔نسلی طور پرکشمیر کے بالکل الگ تھلگ حصے گریزکے علاقے میں اہرام نما پہاڑی کو ’حبہ خاتون پہاڑی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں کشمیر کے راجہ یوسف شاہ چک ’بلبل کشمیر ‘ حبہ خاتون سے ملتے ہیں اور ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں وہ دونوں شادی بھی کرلیتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ کہ یہ شادی زیادہ نہ چل سکی اور حبہ خاتون نے اس وقت علیحدگی اختیار کر لی جب باوجود ان کے لاکھ منع کرنے کے لیے یوسف شاہ چک بادشاہ اکبر کا مقابلہ کرنے کے لیے دہلی روانہ ہوگئے۔
یوسف شاہ چک سے علیحدگی کے بعد حبہ خاتون نے روح فرساشاعری کی جس نے وادی میں کافی مقبولیت حاصل کی۔اپنے معاصرین مرد شعرا حضرات کے مقرر کردہ شاعرانہ اصولوں کے بر خلاف حبہ خاتون شاعری کی غیر رومانوی پارسا روایت کو نہیں اپنایا۔ ان کی بیش تر شاعری شیریں اور پائیدار رویوں کا امتزاج ہے جس نے انفرادی طور پر کشمیر کے عام لوگوں کے دلوں کو چھو لیا۔ایسے وقت میں جب شاعری انفرادیت میں محدود تھی ، حبہ خاتون نے اپنے ذاتی تجربات و احساسات کو معاشرے کی جذباتی تکمیل کا حصہ بنایا۔حبہ خاتون ان چند کشمیری مستورات میںسے تھیں جنہوں نے کشمیرکے بادشاہ کی ملکہ کے طور پر اقتدار کے اعلیٰ عہدے تک رسائی کی اور یہ عین وہ دور بھی تھا جب رشی۔ صوفی کی پاکیزہ ثقافت کے زیر سایہ انہیں کشمیر کی روحانی روایت کا حصہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔
یہ ڈراما معروف تھیئٹر آرٹسٹ کاجل سوری نے لکھا ہے۔اس میوزیکل ڈرامے میںوادیٗ کشمیر کی تہذیب و ثقافت عیاں طور پر پیش کی گئی ہے۔ڈراما حبہ خاتون کی پیش کش دہلی اردو اکادمی کے ڈراما فیسٹیول ۲۰۱۹ میں ’روبرو تھیئٹر‘ کے ذریعے شری رام سینٹر آڈیٹوریم ، منڈی ہاؤس، نئی دہلی میں کی جا چکی ہے۔ کاجل سوری کے لکھے اس ڈرامے کی اشاعت سنجنا پرکاشن ، دہلی سے ہوئی ہے۔یہ ڈراما معروف تھیئٹر آرٹسٹ کاجل سوری نے لکھا ہے۔اس میوزیکل ڈرامے میںوادیٗ کشمیر کی تہذیب و ثقافت عیاں طور پر پیش کی گئی ہے۔ڈراما حبہ خاتون کی پیش کش دہلی اردو اکادمی کے ڈراما فیسٹیول ۲۰۱۹ میں ’روبرو تھیئٹر‘ کے ذریعے شری رام سینٹر آڈیٹوریم ، منڈی ہاؤس، نئی دہلی میں کی جا چکی ہے۔ کاجل سوری کے لکھے اس ڈرامے کی اشاعت سنجنا پرکاشن ، دہلی سے ہوئی ہے۔یہ ڈرامہ معروف تھیئٹر آرٹسٹ کاجل سوری نے لکھا ہے۔اس میوزیکل ڈرامے میںوادیٗ کشمیر کی تہذیب و ثقافت عیاں طور پر پیش کی گئی ہے۔ڈراما حبہ خاتون کی پیش میںجن کرداروں اورفنکاروں نے اپنی خدمات انجام دیں ان میں مصنف و ہدایت کار(کاجل سوری)پروڈکشن کو آرڈینیٹر(روہت مروٹھیا)کوریوگرافر(آستھا گپتا)کاسٹیوم و میک اپ(ایم راشد)میوزک(دینو شرما)لائٹ(اظہر خان)ظالم ساس(جَس کِرن چوپڑا)یوسف شاہ چک(شانتنو سنگھ)حبہ خاتون(چاند مکھرجی)علمہ(رچنا یادو)ساحل(شبھم شرما)عبدل راتھیر(روہت راجپوت)سمیر(لوکیش)ولی عہد(آشیس وتس)کمال(راہل ملہوترا) نور (نوجیوتی) صوفی (اوجوسوِنی)پیر بابا(جتِن)وغیرہ خاص ہیں۔آخرمیں مہمان ،فنکاروںاور ناظرین کاشکریہ ضیاء اللہ صدیقی نے اداکیا۔