واشنگٹن: سینیئر امریکی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ شام میں امریکہ کے راتوں رات کیے جانے والے حملوں میں ایران کے پاسداران انقلاب پولیس اور ایران کے پشت پناہ گروپوں کے زیر استعمال ہتھیاروں کے ذخیرے اور گولہ بارود کے ذخیرہ کرنے کی سہولت کو نشانہ بنایا گیا۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حملوں میں ایرانی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق، دوایف- 16 لڑاکا طیاروں نے گولہ باری کا استعمال کرتے ہوئے مقامی وقت کے مطابق تقریباً 4:30 بجے عراق کی سرحد کے قریب ابو کمال کے قریب حملہ کیا۔امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ "تنگ انداز میں کیے گئے حملے” اسرائیل اور حماس جنگ سے "علیحدہ اور الگ” تھے۔
یہ حملے وائٹ ہاؤس کے انتباہ کے بعد کیے گئے ہیں کہ واشنگٹن عراق اور شام میں اپنی افواج پر حملوں کا جواب دے گا جس کا الزام اس نے ایران کے حمایت یافتہ گروپوں پر لگایا ہے۔
اس درمیان خبر ہے کہ عراق اور شام میں امریکی فوجی اڈوں پر متعدد حملوں کے بعد شام کے شہر الحسکہ میں واقع "الشدادی بیس” پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ "عراق میں اسلامی مزاحمت” نامی ایک عراقی دھڑے نے آج جمعرات کو سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "الشدادی اڈے” کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس فوجی اڈے پر امریکی فوجی بھی موجود ہیں۔ اس دھڑے نے اڈے کو امریکیوں کے زیر قبضہ بھی قرار دیا۔مزاحمتی گروپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ مغربی عراق کے شہر الانبار میں عین الاسد کے اڈے کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا ہے یاد رہے الحسکہ فوجی اڈہ اور عراق اور شام میں دیگر ایسے اڈے جہاں امریکی افواج بھی موجود ہیں کو گزشتہ دنوں راکٹ باری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔یہ حملے بڑھتے ہوئے حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے علاقائی اور بین الاقوامی جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشات بڑھا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے اپنی فوجی تیاری بڑھا دی اور مشرق وسطیٰ میں مزید فضائی دفاعی نظام بھیج دئیے ہیں۔