نئی دہلی(ایجنسیاں): پیر کے روز پہلی بار آسمانی بجلی کو اپنی مرضی کی راہ دینے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں اسی طریقے سے آسمانی بجلی پیدا تک کی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں فی سیکنڈ چالیس تا ایک سو بیس مرتبہ آسمانی بجلی گرتی ہے جو سالانہ بنیادوں ہر چار ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت اور اربوں ڈالر کے دیگر نقصان کی وجہ بنتی یے۔ اب تک بجلی کے ان شدید جھٹکوں سے بچاؤ کے لیے عمارتوں پر دھاتی سلاخ کی تنصیب کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس کا تصور سب سے پہلے سترہ سو انچاس میں امریکی دانشور بینجمن فرانکلن نے پیش کیا تھا۔چھ تحقیقی اداروں کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے یہی طریقہ استعمال کیا ہے، تاہم اس میں دھاتی سلاخ کی جگہ طے شدہ نقطے پر چلنے والی لیزر نصب کی گئی ہے۔
سائنسی جریدے جرنل نیچر فوٹونکس میں شائع کردہ تحقیق میں اس لیزر بیم کے استعمال کی وضاحت کی گئی ہے۔ سوئس پہاڑیوں کی چوٹی سے اس لیزر کے ذریعے آسمانی بجلی کو پچاس میٹر سے زائد دور گائیڈ کیا گیا۔تحقیق کے مرکزی مصنف اور پیرس کی آپٹکس لیبارٹری آف اینسٹا سے تعلق رکھنے والے ماہر طبعیات آؤئرلین ہووار کے مطابق، ”ہم فقط پہلی آزمائش کر رہے تھے کہ آیا لیزر بجلی کے کوندے ( چمک) پر کوئی اثر رکھتی ہے۔ اور یوں اس کوندے کو اپنی مرضی کی راہ دی گئی۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ مستقبل میں مزید موثر تب ہو گا، جب آسمانی بجلی پیدا بھی خود کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ آسمانی بجلی دراصل طوفانی بادلوں یا فضا اور زمین کے بیچ برق سکونی کے اخراج سے پیدا ہوتی ہے۔ لیزر بیم پلازمہ پیدا کرتی ہے، جس میں چارج کے حامل آئن اور الیکٹران ہوا کو گرم کرتے ہیں۔ یوں ہوا جزوی طور پر موصل ہو جاتی ہے اور آسمانی بجلی اسے ایک بہتر راستہ سمجھتے ہوئے استعمال کرتی ہے۔اس سلسلے میں امریکی ریاست نیومیکسیکو میں سن دو ہزار چار میں ایک تجربہ کیا گیا تھا، تاہم تب لیزر نے آسمانی بجلی کو قابو میں نہیں کیا تھا۔ ہووار نے بتایا کہ اس کہ یہ تھی کہ استعمال کی جانے والی لیزر بیم نے فی سیکنڈ درکار پلس پیدا نہیں کی تھیں۔