ہردا، 6 فروری (یو این آئی/ایجنسیاں) مدھیہ پردیش کے ہردا ضلع ہیڈکوارٹر میں پٹاخہ بنانے والی فیکٹری میں آج اچانک سلسلہ وار دھماکوں کی وجہ سے پورا شہر دہل گیا اور اس کی وجہ سے اب تک 11 لوگوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے، کم از کم 50 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
انتظامیہ نے ابتدائی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہردا نگر کے مضافات میں واقع ایک کالونی میں پٹاخے کی فیکٹری چل رہی ہے۔ اس کے دو تین گودام بھی ہیں، جہاں دھماکہ خیز مواد رکھا جاتا ہے۔ دن میں 11.30 کے قریب فیکٹری میں دھماکے کے بعد اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے دھماکے ہوئے۔ دھماکے کی آواز اور تھرتھراہٹ کئی کلومیٹر کے علاقے میں سنی اور محسوس کی گئی۔
انتظامیہ نے فوری طور پر راحت اور بچاؤ کام شروع کیا اور ہردا کی تمام فائر گاڑیوں کے علاوہ قریبی اضلاع سے فائر گاڑیوں اور ملازمین کو بھی بلایا گیا۔ بھوپال اور اندور سے بھی ماہرین کی ٹیمیں بھی ہردا بھیجی گئی ہیں۔ دریں اثنا، انتظامیہ نے اس واقعے میں چھ افراد کی ہلاکت اور کم از کم 50 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دوپہر 1.30 بجے تک موصول ہونے والی خبروں کے مطابق، زخمیوں کو اندور اور بھوپال بھیجا جا رہا ہے، جو ہردا سے تقریباً 150 سے 225 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ فیکٹری میں درجنوں مزدور کام کرتے ہیں اس کے علاوہ آس پاس کے رہائشی علاقوں میں بھی سینکڑوں افراد رہائش پذیر ہیں۔ دھماکے کی خوفناک آواز سن کر لوگ اپنے گھروں سے محفوظ مقامات کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں نے فوری طور پر راحت اور بچاؤ کا کام شروع کر دیا۔انتظامیہ نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔
خیال رہے کہ مدھیہ پردیش کے ہردا ضلع ہیڈکوارٹر میں آج آبادی والے علاقے میں پٹاخہ فیکٹری میں سلسلہ وار دھماکہ کے واقعہ کے ساتھ ہی انتظامیہ کے دعووں کی قلعی کھل گئی۔
پٹاخے کی فیکٹری اور اس کے گودام شہر کے مضافات میں ایک رہائشی علاقے میں واقع ہیں اور اس کا مالک راجیو اگروال نامی شخص بتایا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چند سال قبل بھی اس فیکٹری میں دھماکہ ہوا تھا اور پھر مالک کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں فیکٹری مالک کی سزا کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئی ہیں۔
پٹاخہ بنانے والی فیکٹری کے لائسنس اور اس کے آپریشن سے متعلق درست دستاویزات کے بارے میں پوچھے جانے پر انتظامی حکام کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح فیکٹری کے احاطے میں لگنے والی آگ پر قابو پانا ہے اور ساتھ ہی حادثے سے متاثرہ افراد کو بحفاظت باہر نکالنا ہے۔ زخمی کو علاج کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ معاملے کی جانچ بعد میں کی جائے گی۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ فیکٹری بیرا گڑھ کے علاقے میں چل رہی تھی اور اس میں کئی مزدور کام کرتے ہیں۔ پٹاخے بنانے میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد بھی فیکٹری علاقہ کے ارد گرد بنائے گئے گودام میں رکھا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر پر آبادی والے علاقے میں اس طرح کوئی فیکٹری چل رہی ہو اور انتظامیہ کو اس کا علم ہی نہ ہو۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا فیکٹری باقاعدہ اجازت کے تحت چلائی گئی تھی؟ اور اگر اجازت مل گئی تو کیا ایسی فیکٹری کو رہائشی علاقے میں چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
بتایا جاتا ہے کہ فیکٹری سے تھوڑے فاصلے پر ایک پٹرول پمپ بھی واقع ہے اور راحت اور بچاؤ کی کارروائیوں کے دوران اس بات کا خیال رکھا گیا کہ دھماکہ خیز مواد سے نکلنے والی چنگاریاں پمپ تک نہ پہنچیں۔ اس کے علاوہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دھماکے سے ملبے میں تبدیل ہونے والے گھروں اور فیکٹریوں میں درجنوں افراد کام کر رہے ہوں گے یا وہاں موجود ہوں گے۔