مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے کوسوں دور، ایڈوکیٹ شاہد ندیم کا بیان
ممبی : مالیگاؤں کے 2006بم دھماکہ معاملے کو اسلامی کلینڈر کے حساب سے 17/ مکمل ہوگئے یعنی کے سترہ سال قبل 15/ شعبا ن المعظم کے دن جمعہ کی نماز کے وقت حمیدیہ مسجد بڑا قبرستان اور مشاورت چوک میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جس میں 31/ معصوم لوگوں کی جانیں تلف ہوئی تھیں جبکہ 312/ افراد زخمی ہوئے تھے۔چا ر جگہوں پر بم نصب کیئے گئے تھے، پہلا بم حمیدیہ مسجد کے گیٹ پر، دوسراپارکننگ میں کھڑی سائیکل پر، تیسراوضو خانہ کے پاس کی دیوار پر لٹکادیا گیا تھا جبکہ چوتھا بم مشاورت چوک میں نصب کیا گیا تھا۔ شب برات کا موقع تھا جس کی وجہ سے قبرستان کے گیٹ پر شہر اور بیرون شہر سے آنے والے فقیروں کی بڑی تعداد موجود تھیں۔بم دھماکوں کی تفتیش سب سے پہلے مقامی پولس نے شروع کی لیکن اسے ریاستی حکومت کی ایماء پر فوراً انسداد ہشت گرد دستہ ATSنے اپنے ہاتھو ں میں لے لیا۔
اے ٹی ایس نے اپنے ڈھنگ سے تفتیش کی اور ملزمین نورالہدا شمش الضحی، شبیر احمد مسیح اللہ(مرحوم)، رئیس احمد رجب علی منصوری، ڈاکٹر سلمان فارسی عبدالطیف آئمی، ڈاکٹر فروغ اقبال احمد مخدومی، شیخ محمد علی عالم شیخ، آصف خان بشیر خان، محمد زاہد عبدالمجید انصاری،ابرار احمد غلام احمدکو گرفتار کیا، اے ٹی ایس نے نا صرف مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا بلکہ ان کے خلاف ہزاروں صفحات پر مشتمل چارج شیٹ بھی داخل کی۔مقدمہ اے ٹی ایس کے ذریعہ تفتیش کیئے جانے کی وجہ سے مقدمہ کی سماعت ممبئی میں قائم خصوصی مکوکا عدالت میں ہونے لگی، مالیگاؤں سیشن عدالت کے پاس مکوکا قانون کے تحت داخل مقدمات چلانے کی پاور نہیں ہونے کی وجہ سے مقدمہ مالیگاؤں سے ممبئی منتقل کردیا گیا اور ملزمین کو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں قید کردیا گیا۔
حالانکہ عموماً یہ کہا جاتا ہیکہ Justice delayed is justice denied لیکن اس معاملے میں تاخیر سے مسلم ملزمین کو فائدہ ہوا اور نہ صرف انہیں فائدہ ہو ابلکہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا جو دھبہ لگا تھا وہ بھی کچھ حد تک صاف ہوگیا کیونکہ قومی تفتیشی ایجنسی NIAنے مقدمہ تفتیش اپنے ہاتھوں میں لیکر مزید تفتیش کی اور یہ پایا کہ مالیگاؤں 2006 بم دھماکے مسلم نوجوانوں نے نہیں بلکہ ہندو دہشت گردوں دھان سنگھ شیو سنگھ، منوہر رام سنگھ نرواریا، راجندر وکرم سنگھ چودھری اورلوکیش شرما گوپال کرشنا نے کیئے تھے۔
بھگواء دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد مسلم نوجوانوں نے سب سے جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے مکوکا عدالت میں ضمانت عرضداشت داخل کی، ضمانت عرضداشت کی سماعت خصوصی مکوکا جج وائی ڈی شندے نے کی اور قومی تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اعتراض نہیں کیئے جانے کی وجہ سے مکوکا عدالت نے تمام ملزمین کی ضمانت منظور کرلی۔مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی کے بعد انہیں مالیگاؤں سے ممبئی تاریخ پر آنا پڑتا تھا اور ان کے ساتھ ہی بھگواء ملزمین کو بھی عدالت میں پیش کیا جانے لگا، اسی درمیان قومی تفتیشی ایجنسی نے اپنی اضافی چارج شیٹ عدالت میں داخل کردی ہے یہ کہا کہ اے ٹی ایس نے مسلم نوجوانوں کو غلط طریقے سے ملزم بنایا ہے جبکہ یہ بم دھماکے دھان سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے کیئے تھے۔این آئی اے نے اپنی تفتیش میں یہ بھی پایا کہ اے ٹی ایس کی جانب سے داخل ہزاروں کی صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جھوٹ کا پلندہ ہے، گواہوں کے بیانات جعلی ہیں۔
قومی تفتیشی ایجنسی کی تازہ فرد جرم کو بنیاد کو بنیاد بنا کر مسلم نوجوانوں کی مقدمہ سے ڈسچارج کی عرضداشت خصوصی این آئی اے عدالت میں داخل کی گئی جس کی ناصرف بھگوا ء ملزمین نے مخالفت کی بلکہ انسداد دہشت گرد دستہ اے ٹی ایس نے بھی مخالفت کی اور اپنے جواب میں کہا کہ ان کی تفتیش درست ہے اور عدالت کو مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی بجائے دونوں گروپ کے ملزمین کو مقدمہ کا سامنا کرنے کا حکم دینا چاہئے لیکن 25/ اپریل 2016 کو خصوصی این آئی اے عدالت کے جج وی وی پاٹل نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا، مسلم نوجوانوں کے مقدمہ سے بری کیئے جانے والے فیصلے سے بھگوا ء دہشت گردوں اور اے ٹی ایس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور انہوں نے خصوصی عدالت کے فیصلہ کو بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
حالانکہ نچلی عدالت نے مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا لیکن بھگوا ء ملزمین اور اے ٹی ایس کی جانب سے داخل اپیل کو بامبے ہائی کور ٹ نے سماعت کے لیئے قبول کرلیا ہے، جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی مسلم نوجوانوں کے خلاف داخل اپیل کی سخت لفظوں میں مخالفت کی لیکن ہائی کورٹ کے ججوں کے مستقل تبادلوں کی وجہ سے اپیل التواء کا شکار ہے۔ایسا لگتا ہیکہ جب تک ہائی کورٹ اے ٹی ایس اور ہندو ملزمین کی اپیلوں پر فیصلہ نہیں کردیتی، نچلی عدالت مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں کریگی۔
اسی درمیان قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے گرفتار کیئے گئے چاروں بھگواء دہشت گردوں کو بامبے ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پرر ہا کیئے جانے کا حکم جاری، ضمانت پر رہائی کے بعد بھگواء دہشت گردوں نے خصوصی عدالت میں مقدمہ سے ڈسچارج کی عرضداشت داخل کی ہے جس کی بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے۔
اس مقدمہ کی تفتیش این آئی اے کے پاس ہونے سے بم دھماکہ متاثرین خود سے کچھ نہیں کرسکتے ہیں، کریمنل پروسیجر کوڈ کے مطابق مقدمہ کو استغاثہ ہی چلائے گا جبکہ مداخلت کار کی حیثیت سے بم دھماکہ متاثرین محض ان کی مدد کرسکتے ہیں، ناچاہتے ہوئے بھی بم دھماکہ متاثرین کو مقدمہ کی سماعت شروع ہونے کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے، ہر سال شب برات کے موقع پر بم دھماکوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔