یہ معصوم فاربس گنج سے تمل ناڈو کے کسی مدرسہ میں پڑھنے کے لیے جارہے تھے،انہیں بازیاب کرانے کیلئے امارت شرعیہ کوشاں
دانا پور:امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شوال کے مہینے میں پورے ملک کے مدارس میں داخلہ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، بہار، جھارکھنڈ و اڈیشہ کے طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد حصول تعلیم کے لیے دیگر ریاستوں کے مدارس میں جاتی ہے، ان میں چھوٹے بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔موجودہ حالات میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ طلبہ کے لیے خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے دور کا سفر محفوظ نہیں ہے۔ امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ میں بھی کئی بار اس مسئلہ پر غور کیا گیا تھا اورمجلس شوریٰ نے محسوس کیا تھا کہ کم عمر طلبہ کا اپنے صوبوں سے باہر کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جانا مناسب اور محفوظ نہیں ہے، اس لیے کہ ہر سال متعدد ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، جس میں دور دراز کے مدارس میں جارہے نو عمر طلبہ کو اسٹیشن پر حقوق انسانی کمیشن اور چائلڈ لیبر مخالف دستوں کے ذریعہ ٹرینوں سے اتار لیا جاتا ہے اور انہیں پریشانیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔
حالیہ واقعہ یہ ہے کہ مورخہ 03 مئی 2023بدھ کے روز ارریہ کے فاربس گنج کے 37بچے تمل ناڈو کے کسی مدرسہ میں پڑھنے کے لیے مدرسہ کے استاذ گیا کے باشندہ مولانا عبدالقادر صاحب کے ساتھ سنگھ مترا اکسپریس میں دانا پور اسٹیشن پرسوا ر ہوئے، گاڑی اسٹیشن سے کھلی ہی تھی کہ بچپن بچاؤ تنظیم کے کارندوں نے تمام بچوں اور استاذ کو گاڑی سے زبردستی اتار کر آر پی ایف کے حوالہ کر دیا۔ امارت شرعیہ کو جیسے ہی خبر ہوئی تو فوراً امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی ہدایت پر امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم صاحب نے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی، مولانا نصیر الدین مظاہری اور مولانا محمد عادل فریدی کو دانا پور اسٹیشن آر پی ایف آفس بھیجا۔ یہ لوگ وہاں گئے اور بچوں سے ملاقات کر کے انہیں تسلی دی، بچے خوفزدہ تھے، ان کی ہمت بندھائی، ان کے لیے کچھ کھانے وغیرہ کا انتظام کرایا اور رات میں تقریباً ڈیڑھ بجے تک بچوں کے ساتھ رہے۔آر پی ایف سے بات کی کہ یہ بچے پڑھنے جا رہے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے، لیکن پولیس چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئی اور کہا کہ بچوں کو ان کے گارجین کے حوالہ کیا جائے گا۔بہر حال سارے بچوں کے گارجین کو خبر کی گئی کہ مناسب ڈاکومنٹ کے ساتھ آکر اپنے بچوں کو چھڑا کر لے جائیں۔ اگلے دن04 مئی کو قائم مقام ناظم مولانامحمد شبلی صاحب بنفس نفیس کچھ بچوں کے گارجین اور استاذ مولانا عبد القادر صاحب کے رشتہ داروں کو لے کر دانا پور اسٹیشن پر آر پی ایف اور جی آر پی کے افسران سے ملے، ان کے ساتھ معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی، مولانا نصیر الدین مظاہری، مولانا محمد عادل فریدی، ہائی کورٹ کے وکیل جناب ایڈووکیٹ مظہر صاحب بھی تھے، جبکہ آفات مینجمنٹ کے وزیر جناب شاہنواز صاحب کے پرسنل سکریٹری جناب نثار احمد صاحب بھی وہا ں پہونچے اور پولیس افسران سے بات کی۔ مگر اس سے پہلے ہی بچوں کو لے جا رہے استاذ اور ان کے ساتھ مزید تین طلبہ جو بالغ تھے، ان پر ایف آئی آر کر کے انسانی تسکری کے الزام میں ان کو کورٹ بھیجا جا چکا تھا۔بچوں کو بہت ہی کس مپرسی کی حالت میں جی آر پی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ جب مولانا موصوف نے اور نثار احمد صاحب نے سخت الفاظ میں پولیس سے بات کی اور انہیں بچوں کو اس کس مپرسی کی حالت میں رکھنے پر سخت سست کہا تو پھر انہیں آناً فاناًچائلڈ ہوم بھیج دیا گیا، قائم مقام ناظم صاحب گارجین حضرات کو لے کر چائلڈ ہوم بھی گئے اور وہاں کے ذمہ داران سے مل کر بچوں کو سہولیات پہونچانے، ان کی رہائش اور کھانے پینے کا معقول نظم کر نے اور انکو جلد از جلد ان کے گارجین کے سپرد کرنے کے سلسلہ میں بات کی۔ اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ بچے چائلڈ ہوم میں ہیں، استاذ اور تین بالغ طلبہ کور ٹ کی کسٹڈی میں ہیں اور امارت شرعیہ کی کوشش ان کو چھڑانے کی جاری ہے۔
جناب قائم مقام ناظم صاحب نے کہا کہ اس کے علاوہ گذشتہ لاک ڈاؤن میں جس طرح ان صوبوں کے طلبہ مہاراشٹر، یوپی، گجرات اور دیگر صوبوں میں پھنسے اوران کے لیے وطن واپسی کا شدید مسئلہ پیدا ہوا، بڑی دقتوں اور کاوشوں سے ان طلبہ کے محفوظ وطن واپسی کا انتظام کیا گیا، امارت شرعیہ نے بھی اس موقع پر طلبہ کی وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے بڑی محنت کی۔ایسی صورت حال میں اس وقت قطعا مناسب نہیں ہے کہ تعلیم کے لیے زیادہ دور دراز کے صوبوں کا انتخاب کیا جائے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ علاقائی مدارس کو ہی ترجیح دی جا ئے۔
مولانا موصوف نے بچپن بچاؤ اور چائلڈ لیبر مخالف تنظیموں کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسا دیکھا جارہا ہے کہ کچھ برسوں سے ایک خاص ذہنیت کے ساتھ یہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور مسلمان بچوں خصوصاً مدارس میں پڑھنے کے لیے جانے والے طلبہ کو ٹارگیٹ بنا کر پریشان کر رہے ہیں اور اپنی تنظیم کی نیک نامی کے لیے ناجائز طور پر ہیومن ٹریفکنگ اور انسانی تسکری جیسے الزامات عائد کر کے طلبہ، ان کے گارجین اور اساتذہ کو پریشان کر رہی ہیں اور مدارس کو بھی خواہ مخواہ بدنام کرنے کی کوشش سوچی سمجھی سازش کے ساتھ کر رہی ہیں، اس کام میں انہیں اقلیت مخالف اور نفرت پھیلانے والی سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس سے ان کے حوصلہ بلند ہیں۔مولانا موصوف نے والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی ہے کہ ایسے پر آشوب حالات میں وہ اپنے بچوں کو خاص طور پر چھوٹے بچوں کو مقامی مدارس میں ہی داخل کرائیں انہیں دور دراز نہ بھیجیں، البتہ جب وہ بڑے ہو جائیں تو اعلیٰ تعلیم کے لیے دور دراز کے مدارس میں بھیج سکتے ہیں۔