تہران(ایجنسیاں):ناروے میں قائم غیرسرکاری تنظیم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے کہا ہے کہ مہساامینی کی پولیس کے زیرحراست پُراسرار موت کے ردعمل میں ہونے والے ملک گیراحتجاجی مظاہروں پر ایرانی حکام کے کریک ڈاؤن میں 76 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے ایک بیان میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ فیصلہ کن انداز میں اورمتحد ہو کر ایران میں مظاہرین کے قتل اورتشدد کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ گروپ کی طرف سے حاصل کردہ ویڈیو فوٹیج اور موت کے سرٹی فکیٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ’’مظاہرین پر براہِ راست گولیاں چلائی جارہی ہیں‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے 14 صوبوں میں ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ان میں سب سے زیادہ 25 ہلاکتیں بحیرہ کیسپین کے کنارے واقع شمالی صوبہ مازندران میں ہوئی ہیں۔دارالحکومت تہران میں تین اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
آئی ایچ آر نے یہ بھی کہا کہ’’زیادہ ترمتاثرہ خاندانوں کو رات کے وقت خاموشی سے اپنے پیاروں کو دفن کرنے پرمجبورکیا گیا ہے اور عوامی سطح پر جنازوں کے انعقاد کے خلاف دباؤ ڈالا گیا ہے‘‘۔
این جی او کے مطابق ’’بہت سے خاندانوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگرانھوں نے اپنے پیاروں کی موت کی تشہیرکی توان کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے‘‘۔
ایران کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں 41 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار بھی شامل ہیں۔
ایران میں یہ مظاہرے ایک ہفتہ قبل شمال مغربی ایران میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کے جنازے کے موقع پرشروع ہوئے تھے۔ انھیں خواتین کے لباس کی نگرانی اورحجاب کے قوانین نافذ کرنے والی اخلاقی پولیس نے 13ستمبر کو گرفتار کیا تھا۔وہ اس کے کچھ دیر بعد ہی اخلاقی پولیس کے زیرحراست کوما میں چلی گئی تھیں اور 16ستمبر کو وفات پا گئی تھیں۔
ان کی موت نے ایران میں شخصی آزادیوں پر پابندی، خواتین کے لیے لباس کے سخت ضابطہ اخلاق اور پابندیوں سے دوچار معیشت سمیت دیگر مسائل پرغم و غصے کو جنم دیا ہے۔خواتین نے ان مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے اپنے نقاب کوتارتار کیاہے،سرعام جلایا ہے اور بعض عورتوں نے اپنے سر کے بال تک کاٹ لیے ہیں۔انھوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف سخت نعرے بازی کی ہے۔
یادرہے کہ 2019 میں ایندھن کی قیمتوں پراحتجاجی مظاہروں کے بعد ایران میں حکمران طبقے کے خلاف یہ دوسری بڑی احتجاجی تحریک ہیں۔تب ایرانی سکیورٹی فورسز کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں 1500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ ایران میں انقلاب کے بعد تاریخ کا سب سے خونریز تصادم تھا۔