ممبئی 22 اپریل (یو این آئی ) مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے دفتر تِلک بھون میں آج کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر جناب طارق انور نے اردو صحافیوں سے ایک خصوصی ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے بہار کی سیاسی صورت حال، ملک میں بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست، مسلمانوں کے موجودہ رجحانات اور انڈیا الائنس کی حکمت عملی پر تفصیلی گفتگو کی۔طارق انور نے کہا کہ بہار میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف عوام میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے، خصوصاً اقلیتی طبقے میں ان کے حالیہ فیصلوں پر سخت بے اطمینانی ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نتیش کمار کی طرف سے اس بل کی حمایت کے بعد مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نتیش کمار کا رویہ موقع پرستی کی واضح مثال ہے اور عوام اب اس طرزِ سیاست کو مسترد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہار میں کانگریس لیڈر کنہیا کمار کی قیادت میں جاری ’ہجرت روکو یاترا‘ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکی ہے، جس میں راہل گاندھی کی شمولیت نے اسے قومی سطح پر ایک طاقتور پیغام میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ یاترا کسانوں، مزدوروں اور روزگار کے مسائل پر عوامی بیداری پیدا کر رہی ہے، جو آنے والے انتخابات میں کانگریس اور انڈیا الائنس کے لیے ایک مضبوط بنیاد بن سکتی ہے۔
طارق انور نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہار سمیت پورے ملک میں ووٹوں کی پولرائزیشن کے ذریعے اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کی سیاست کا مقصد عوام کو مذہب، ذات اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کر کے سیکولر ووٹ کو منتشر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کبھی ہجومی تشدد کو بڑھاوا دیتی ہے، کبھی اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتی ہے، تاکہ اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر صرف ووٹ بینک کی سیاست کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں سیکولر ووٹرز کی ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انہیں ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اتحاد اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ جمہوری اور آئینی اقدار کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا وقت اختلاف نہیں، اتحاد کا ہے۔ تمام سیکولر طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر بی جے پی کی سیاست کو شکست دینی ہوگی۔
طارق انور نے مسلمانوں کے سیاسی رجحانات پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ اب مسلمان جذباتی نعروں کے بجائے سیاسی سوجھ بوجھ سے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب اپنے ووٹ کو سوچ سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں تاکہ اپنا وجود اور حقوق محفوظ رکھ سکیں۔ اردو میڈیا کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ اردو میڈیا ہمیشہ سے مظلوموں کی آواز رہا ہے اور آج جب مرکزی میڈیا کا بڑا حصہ سرکاری بیانیے کا ترجمان بن چکا ہے، ایسے میں اردو صحافت کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔