کابل(ایجنسیاں):افغانستان میں جب سے طالبان نے قبضہ کیا ہے، تب سے وہاں کے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان لڑکیوں کی کم عمر میں شادی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگ کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کرنا اس کے مقابلے بہتر مان رہے ہیں کہ طالبانیوں سے شادی کرنے پر مجبور ہوں۔ آر ایف ای-آر ایل کی رپورٹ کے مطابق افغان والدین کو اپنی لڑکیوں کی شادی کرنے سے کچھ سیکورٹی کا جذبہ بھی ملتا ہے۔
گھور علاقہ کی ایک حقوق نسواں کارکن شکری شیرزئی نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جبراً اور کم عمر میں شادی کے معاملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے اراکین سے شادی کرنے کے لیے مجبور ہونے سے بچانے کی امید میں کئی کنبہ جلد شادی کے لیے متفق ہیں۔ لیکن بھلے ہی دلیل بہتر زندگی حاصل کرنے پر مبنی ہو لیکن اس کا اثر فیملی ڈھانچہ کے لیے تباہناک رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جبراً اور کم عمر میں شادی کی وجہ سے فیملی میں تشدد کے معاملے بڑھ گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جولائی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بچوں کی شادی، جلدی اور جبراً شادی کی شرح طالبان حکومت میں بڑھ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک ریسرچر نکولیٹ والڈمین کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بچوں کی شادی، کم عمر شادی اور جبراً شادی کے سب سے عام اسباب میں معاشی اور انسانی بحران اور خواتین کے لیے تعلیمی و کاروباری امکانات میں کمی شامل ہے۔