پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے کثرت رائے کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایااور واضح کیا کہ اس ایشو پرپارلیمنٹ کوقوانین وضع کرنے چاہییں
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ہم جنس پرست جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔اس فیصلے کو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے ایک دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے آج اس بارے میں فیصلہ سنایا۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنا عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور پارلیمنٹ کو شادی سے متعلق قوانین وضع کرنے چاہییں۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ قانون ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کو بچہ گود لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاملے پر دو ججز انھیں یہ حق دینے کے حق میں تھے جبکہ تین ججز کو اس سے اختلاف تھا اور فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوا۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ ’عدالت کو نظرِثانی کی طاقت کے استعمال والے معاملات، خاص طور پر پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والے معاملات میں جو قانون سازی کے دائرے میں آتے ہیں ان سے علیحدہ رہنا چاہیے’۔ تاہم چندرچوڑ نے کہا کہ ریاست کو ہم جنس جوڑوں کو کچھ قانونی تحفظات فراہم کرنے چاہییں۔ اس کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو دیے گئے ’فوائد اور خدمات‘ سے انکار کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’زندگی کے ساتھی کا انتخاب کسی کے طرز زندگی کے انتخاب کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ حق (ہندوستان کے آئین کے) آرٹیکل 21 کے تحت زندگی اور آزادی کے حق کی بنیاد تک جاتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم جنس پرست افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انھوں نے ان کی امداد کے لیے ہاٹ لائنز قائم کرنے اور انھیں محفوظ گھر فراہم کرنے اور ایسے طبی طریقہ کار کو ختم کرنے کا مشورہ دیا جن کا مقصد صنفی شناخت یا جنسی رجحان کو تبدیل کرنا ہے۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس کے بغور مطالعے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ججزحکومت کے وکیل کی جانب سے اس معاملے پر ایکسپرٹ پینل کے قیام کی تجویز پر متفق نظر آئے جس کی صدارت کیبنٹ سیکریٹری کریں گے۔سپریم کورٹ کی جانب سے منگل کو ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے معاملے پر آنے والے فیصلے پر ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے لاکھوں لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔
یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ ہم جنس پرستوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے دائر 18 سے زیادہ درخواستوں کے مشترکہ کیس کی سماعت کر رہی تھی جس میں درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ شادی نہ کرنے کی وجہ سے وہ ’دوسرے درجے کے شہری‘ بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اپریل اور مئی میں کیس کی تفصیل سے سماعت کی۔ عوامی مفاد میں اس عدالتی کارروائی کو لائیو اسٹریم کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ نے کہا تھا کہ وہ مذہبی ذاتی قوانین میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن خصوصی میرج ایکٹ میں تبدیلی کرنے پر غور کرے گا جو ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کے لیے شادیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عدالتی کارروائی آگے بڑھی، یہ واضح ہوتا گیا کہ کیس کتنا پیچیدہ ہے۔