ڈھاکہ: بنگلہ دیش کے طلبہ رہنماؤں نے حسینہ واجد حکومت کی طرف سے میرٹ پر روز گار کا مطالبہ کرنے والے طلبہ اور ان کے ساتھیوں کو دو سو سے زائد کی تعداد میں ہلاک کرنے کے بعد بھی انتقامی کارروائیاں جاری رکھے جانے کے بعد سخت رد عمل کا اعلان کیا ہے۔اپنےاس رد عمل کے طور پر طلبہ رہنماؤں نے ہفتے کے روز عوام سے سول نافرمانی کرنے کی اپیل کر دی ہے۔ طلبہ رہنماؤں کے مطابق ان کی یہ انتہائی اپیل اس پولیس گردی کے خلاف ہے جو حسینہ واجد نے طلبہ اور نوجوانوں کے خلاف مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔
خیال رہے حسینہ واجد کی پندرہ سال سے جاری حکومت کو یہ پہلا موقع ہے کہ ان کے عوام کے خلاف آہنی اقدامات کرنے پر انہیں سخت ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔حسینہ واجد حکومت نے جمعہ کے روز بھی سیکیورٹی فورسز کا استعمال جاری رکھا تھا اور جگہ جگہ سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کر دی، تاہم پہلے کے مقابلے میں یہ سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی نسبتاً کم تھی۔
دوسری جانب بعد از نماز جمعہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں طلبہ نے حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم ہفتے کے روز ملک بھر میں حکومت کے ساتھ عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کا دن اس سول نافرمانی کا پہلا دن ہو گا۔طلبہ کے ایک لیڈر آصف محمد کی طرف سے اعلان میں کہا گیا ہے کہ سول نافرمانی تحریک میں ٹیکسوں کی عدم ادائیگی ، یوٹیلٹی بلوں کی عدم ادائیگی، بیرون ملک سے ترسیلات زر بنکوں کے ذریعے بھجوانے سے انکار بھی شامل ہو گا۔
طلبہ لیڈروں نے اس موقع پر یہ بھی مطالبہ کیا کہ پچھلے کئی ماہ سے طلبہ کے خلاف جاری کریک ڈاؤنز اور تشدد کے واقعات کے ذمہ دار وزیروں کو کابینہ سے فارغ کرے اوروزیر اعظم خود طلبہ اور عوام سے سر عام معافی مانگے ۔ نیز پچھلے مہینوں کے دوران بند کیے گئے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو کھولنے کا فوری اعلان کیا جائے۔خیال رہے حسینہ واجد حکومت نے پچھلے دو ماہ کے دوران تعلیمی اداروں کو اس لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ میرٹ پر روز گار کا مطالبہ کرنے والوں کو تعلیمی اداروں سے حمایت نہ مل سکے۔ تاہم یہ حکومتی حربہ کامیاب نہ ہو سکا ۔
طلبہ اور نوجوانوں کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک کے بعد عام لوگوں میں بھی حسینہ واجد حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہ مطالبہ عام کیا جانے لگا ہے کہ ‘ حسینہ حکومت گھر جائے۔عوام کو ایسی آمرانہ حکومت نہیں چاہیے۔’
عام لوگوں میں یہ باتیں بھی ہونے لگی ہیں کہ کیا ہم نے اس لیے آزادی حاصل کی تھی کہ ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو اس وحشیانہ طریقے سے مارا اور کچلا جائے گا۔یہ پہلا موقع ہے کہ عوام میں اس قدر شدید غصہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل حسینہ حکومت نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سابق وزرا اور ارکان پارلیمنت کو پھانسی پر لٹکایا اور انہیں جیلوں میں مار دیا مگر کوئی شور نہیں اٹھا تھا ، اب لگتا ہے عوامی صبر میں کافی کمی ہونے لگی ہے۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار حسینہ واجد کی حکومت نے 200 سے زائد نوجوانوں کے ساتھ ساتھ 32 کم سن بچوں کو بھی صرف ایک ماہ یا اس سے چند زائد دنوں میں ہلاک کر دیاہے۔ ان بچوں کے ہلاکت کے لیے عوام میں رد عمل شدید تر ہے۔