نئی دہلی، 24 نومبر (یواین آئی) وزیر اعظم نریندر مودی نے بچوں سے لائبریریوں سے جڑ کر اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کی طرف بڑھنے اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اپنے ورثے اور ثقافت کو دریافت کرکے معاشرے کے سامنے لانے پر زور دیا اور کہا، "جو ملک، جوجگہ، اپنی تاریخ کو محفوظ رکھتا ہے، اس کا مستقبل بھی محفوظ رہتا ہے۔
آل انڈیا ریڈیو پر اپنے ماہانہ پروگرام ‘من کی بات’ میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسٹرمودی نے کہا کہ آج کل بچوں کی تعلیم کو لے کر کئی طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھیں اور ان کی کتابوں سے محبت بڑھے- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘کتابیں’ انسان کی بہترین دوست ہیں اور اب اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے، لائبریری سے بہتر اور کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا، ‘میں آپ کے ساتھ چنئی کی ایک مثال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں بچوں کے لیے ایک ایسی لائبریری تیار کی گئی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں اور سیکھنے کا ہب بن چکا ہے۔ اسے پرکرت اریواگم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لائبریری کا آئیڈیا، ٹیکنالوجی کی دنیا سے جڑے شری رام گوپالن جی کی وجہ سے ہے۔ بیرون ملک اپنے کام کے دوران وہ نئی ٹیکنالوجی کی دنیا سے جڑے رہے۔ لیکن، وہ بچوں میں پڑھنے اور سیکھنے کی عادت پیدا کرنے کے بارے میں بھی سوچتے رہے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے پرکرت اریواگم کو تیار کیا۔ اس میں تین ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جنہیں پڑھنے کے لیے بچے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ کئی طرح کی سرگرمیاں بھی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ کہانی سنانے کا سیشن ہو، آرٹ ورکشاپ ہو، میموری کی تربیت کی کلاس ہو، روبوٹکس کلاس ہو یا عوامی خطاب ہو، یہاں ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔
حیدرآباد میں ‘فوڈ فار تھاٹ فاؤنڈیشن’ کی لائبریریوں کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ ان شاندار لائبریریوں کی بھی کوشش یہ ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ موضوعات پر ٹھوس معلومات کے ساتھ کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ بہار میں گوپال گنج کی ‘پریوگ لائبریری’ کا چرچا کئی قریبی شہروں میں ہونے لگا ہے۔ اس لائبریری سے تقریباً 12 دیہات کے نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولت ملنا شروع ہو گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ لائبریری مطالعہ میں مدد کے لیے دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔ کچھ لائبریریاں ایسی ہیں جو طلباء کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بہت مفید ہیں۔ یہ دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہوئی کہ آج لائبریری کا معاشرے کو بااختیار بنانے میں بہترین استعمال کیا جا رہا ہے۔ آپ بھی کتابوں سے دوستی پیدا کریں، اور دیکھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔
گیانا کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’پرسوں رات ہی میں جنوبی امریکہ کے ملک گیانا سے واپس آیا ہوں۔ ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور گیانا میں بھی ایک ‘منی انڈیا’ بستا ہے۔ آج سے تقریباً 180 سال پہلے گیانا میں ہندوستان سے لوگوں کو کھیتوں میں مزدوری اور دیگر کاموں کے لیے لے جایا گیا تھا۔ آج گیانا میں ہندوستانی نژاد لوگ سیاست، کاروبار، تعلیم اور ثقافت کے ہر میدان میں گیانا کی قیادت کر رہے ہیں۔ گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی بھی ہندوستانی نژاد ہیں اور انہیں اپنے ہندوستانی ورثے پر فخر ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا – جسے میں آپ کے ساتھ ’من کی بات‘ میں شیئر کر رہا ہوں۔ گیانا کی طرح دنیا کے درجنوں ممالک میں لاکھوں ہندوستانی آباد ہیں۔ "عشروں پہلے کی 200-300 سال پہلے کے ان کے آباؤ اجداد کی اپنی کہانیاں ہیں۔”
انہوں نے بچوں سے پوچھا، "کیا آپ ایسی کہانیاں تلاش کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہندوستانی تارکین وطن نے مختلف ممالک میں اپنی شناخت بنائی! کیسے انہوں نے وہاں کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا! انہوں نے اپنے ہندوستانی ورثے کو کیسے زندہ رکھا؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ ایسی سچی کہانیاں تلاش کریں اور انہیں میرے ساتھ شیئر کریں۔ آپ ان کہانیوں کو نمو ایپ یا مائی جی اے وی پر انڈین ڈائاسپورا اسٹوریزکے ساتھ بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
عمان میں چل رہے ایک خاص پروجیکٹ میں دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے مسٹرمودی نے کہا کہ کئی ہندوستانی خاندان کئی صدیوں سے عمان میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گجرات کے کچھ سے آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تجارت کے اہم لنک تیار کئے تھے۔ آج بھی ان کے پاس عمانی شہریت ہے، لیکن ہندوستانیت ان کی رگوں میں ہے۔ عمان میں ہندوستانی سفارت خانہ اور ہندوستان کے نیشنل آرکائیوز کے تعاون سے ایک ٹیم نے ان خاندانوں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس مہم کے تحت اب تک ہزاروں دستاویزات جمع کی جا چکی ہیں۔ ان میں ڈائری، حساب کتاب، لیجر، کتابچہ اور ٹیلی گرام شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ دستاویزات تو 1838 کے ہیں۔ یہ دستاویزات جذبات سے بھری ہوئی ہیں۔ برسوں پہلے جب وہ عمان پہنچے تو انہوں نے کیسی زندگی گزاری، کس قسم کی خوشیوں اور غموں کا سامنا کیا اور عمان کے لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے بڑھے، یہ سب ان دستاویزات کا حصہ ہیں۔ ’اورل ہسٹری پروجیکٹ‘ بھی اس مشن کی ایک اہم بنیاد ہے۔ وہاں کے سینئر لوگوں نے اس مشن میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ لوگوں نے اپنے وہاں رہنے سے متعلق باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ایسی ہی ایک ‘اورل ہسٹری پروجیکٹ’ ہندوستان میں بھی ہورہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تاریخ سے محبت کرنے والے ملک کی تقسیم کے دوران متاثرین کے تجربات کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ اب ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، جنہوں نے تقسیم کی ہولناکی دیکھی ہے۔ ایسے میں یہ کوشش مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔