سان فرانسسکو میں شی اور جوبائیڈن آمنے سامنے بیٹھ کر کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے
واشنگٹن: چین کے صدر شی جن پنگ امریکا کے شہر سان فرانسسکو پہنچ گئے۔چینی میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ امریکا اور چین کے اجلاس میں امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ چینی صدر 30 ویں اپیک اکنامک سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ چین کے صدر شی جن پنگ سن 2017 کے بعد پہلی بار امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے رہنما بدھ کے روز ہی سان فرانسسکو میں آمنے سامنے بیٹھ کر کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے سان فرانسسکو میں ہیں، جہاں دونوں رہنما 15 نومبر بدھ کے روز ہی آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرنے والے ہیں۔سان فرانسسکو میں اس ہفتے سالانہ ‘ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن سمٹ’ (اے پی ای سی) ہو رہی ہے جس کے دوران ہی دنیا کی دو مضبوط ترین معیشتوں کے صدور ملاقات کرنے والے ہیں۔سن 2017 کے بعد صدر شی جن پنگ کا کسی بھی نوعیت کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ ہے اور گزشتہ نومبر کے بعد سے دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی ذاتی ملاقات ہے، جس میں ایک ساتھ تنہائی میں بیٹھ کر بات چیت ہو گی۔امریکی وزیر خزانہ جینٹ ایلین نے کیلیفورنیا پہنچنے پر چینی صدر کا شاندار استقبال کیا۔
دنوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت امریکہ اور چین کے درمیان موجودہ سرد تعلقات کے درمیان ہو رہی ہے، کیونکہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے ساتھ ہی اب خارجہ پالیسی کے متعدد ان مسائل کے حوالے سے بھی زیادہ زور دار ہوتا جا رہا ہے، جہاں اس کا امریکہ یا اس کے اتحادیوں سے اختلاف ہے۔یورپ اور امریکہ کی بڑی کمپنیاں بھی اب چین پر اپنا انحصار کم کرنے پر غور کر رہی ہیں، کیونکہ انہوں نے یوکرین میں روس کی جنگ کے دوران روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے معاشی اثرات سے سبق سیکھا ہے۔
پہلے جب مغربی ممالک نے چین سے ”ڈی کپلنگ” یعنی راہیں جدا کرنے کی بات شروع کی تو اس کے ابتدائی حوالوں سے بیجنگ کافی ناراض ہو گیا تھا، جس کے بعد سے مغربی ممالک اس کے لیے مزید غیر جانبدار شرائط تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ”ڈی-رسکنگ” یعنی (خطرہ کم کرنے) کا نام دیا جا رہا ہے۔
بائیڈن نے منگل کے روز کہا، ”ہم چین سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بہتری کے لیے تعلقات کو تبدیل کرنے کی بات ہے۔”سان فرانسسکو کے لیے روانگی سے قبل نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ ان کے لیے کامیابی کا مطلب یہ ہو گا: ”معمول کے راستے پر واپس آنا، مراسلت اور بحران کے دوران فون اٹھانے اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے قابل ہونا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ہماری فوجوں کے درمیان اب بھی ایک دوسرے سے رابطہ رہے۔”
سان فرانسسکو جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں سوار وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن اور شی جن پنگ ممکنہ طور پر غزہ میں اسرائیل اور حماس کے تنازعے، روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کے لیے امریکی کوششوں، شمالی کوریا کے میزائل تجربات اور دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل کے بارے میں بھی بات کریں گے۔کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”جہاں کہیں بھی معاملات پر شدید اختلافات ہیں، یا جن امور پر ہم آنکھ سے آنکھ تک نہیں ملاتے” ان سب پر بائیڈن ”مقابلے سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ بلکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں بھی تعاون کرنے کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
سان فرانسسکو میں منگل کی شام کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے جنوبی کوریا اور جاپانی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کی۔
بدھ کی صبح جنوبی کوریا کی حکومت نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ تینوں ممالک نے روس اور شمالی کوریا کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے خلاف تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا اور اسے بین الاقوامی امن کے لیے ”سنگین خطرہ” قرار دیا۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے ستمبر میں روس کے اپنے دورے کے دوران ملک میں دفاع اور خلاء سے متعلقہ مقامات کا دورہ کیا تھا اور صدر ولادیمیر پوٹن سے بات چیت کی تھی۔رواں ہفتے سان فرانسسکو میں ہونے والے اے پی ای سی کے اجلاس میں روس بھی شرکت کر رہا ہے اور ملک کے نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچک اور وہ دیگر روسی حکام جو امریکی پابندیوں کے تابع نہیں ہیں، اجلاس میں ماسکو کی نمائندگی کریں گے۔