نئی دہلی۔ اردو اکادمی، دہلی کے سابق وائس چیئرمین، معروف محقق و ناقد اور تقریباً تین درجن کتابوں کے مصنف پروفیسر الطاف احمد اعظمی کے انتقال پُرملال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے سکریٹری اردو اکادمی،دہلی محمد احسن عابد نے کہا کہ پروفیسر الطاف احمد اعظمی طویل عرصے سے علیل تھے، ان کے انتقال سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اُس کا پُر ہونا بہت مشکل ہے۔انھوں نے اپنی کتابوں کی شکل میں ایک کثیر سرمایہ چھوڑا ہے اور ادب وتحقیق کے میدان میں ان کی جو خدمات ہیں وہ لائقِ ستائش ہیں۔ ان کی اہم تصانیف میں قرآن کریم کی تفسیر ’’میزان القرآن‘‘،’’ ایمان و عمل کا قرآنی تصور‘‘،’’توحید کا قرآنی تصور‘‘، ’’وحدت الوجود: ایک غیراسلامی نظریہ‘‘ اور شاعری میں ’’فغانِ نیم شب‘‘، ’’زنجیر غزل‘‘ اور ’’چراغ شب گزیدہ‘‘ تین مجموعے شائع ہوئے انھوں نے ’’تفہیم سرسید‘‘، ’’تصانیف سرسید‘‘، تصانیف شبلی پر ایک نظر‘‘،’’ شبلی بحیثیت ادیب و نقاد‘‘اور ’’طبِ یونانی اور اردو زبان‘‘ وغیرہ بہت اہم کتابیں تصنیف کی ہیں اور علمی د نیا میں بہت مقبول ہیں۔پروفیسر الطاف اعظمی کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر یکساں عبور حاصل تھا۔وہ تحریروتقریر دونوں پر ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے تمام عمر تصنیف وتالیف کے کاموں میں بسر کی۔
پروفیسر الطاف اعظمی 2؍ جولائی 1942ء کو بھاٹن پارہ، اعظم گڑھ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ سے حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی یو ایم ایس کیا۔ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران طلبا یونین کے صدر رہے۔ انھوں نے جونپور میں اپنا مطب قائم کیا تھا پھر جامعہ ہمدردکے قیا م کے بعد جامعہ ہمدرد کے سنٹر فار ہسٹری اینڈ سائنس کے شعبہ سے منسلک ہوئے اور 1986ء سے 2004ء تک اس شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اردو اکادمی، دہلی انھیں 1999 میں سائنسی خدمات کے اعتراف میں ’’ایوارڈ برائے سائنسی ادب‘‘ سے نواز چکی ہے۔انھوں نے ان کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کے لیے اور ان کے لواحقین کے لیے اللہ کی بارگاہ میں صبر جمیل کی دعا کی۔