لکھنؤ (پریس ریلیز) فیس بک گروپ دبستانِ اہل قلم لکھنؤ، پر ستائسواں طرحی رباعی مشاعرہ جناب تنویر پھول صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں بحیثیت مہمان خصوصی جناب اطیع اللہ ساحل نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض حافظ ارشد بستوی نے انجام دیے۔
صدر مشاعرہ جناب تنویر پھول نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا:
مقام مسرت ہے کہ دبستان اہل قلم لکھنؤ کا ستائیسواں طرحی رباعی مشاعرہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پایہء تکمیل تک پہنچا جس کی صدارت راقم الحروف کے سپرد تھی اور مہمان خصوصی جناب اطیع اللہ ساحل تھے
جناب معید رہبر ، جناب مخمور کاکوروی ، جناب ارشد بستوی اور آپ سب کی محبت اور خلوص پر بے حد ممنون اور سراپا سپاس ہوں ۔ اس مشاعرے کے لئے مصرعہ ء طرح مہذب لکھنوی کا دیا گیا تھا جس پر شعرائے کرام نے دل کھول کر طبع آزمائی کی اور رباعیات کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ ہوا ۔ فروغ رباعی کے لئے دبستان اہل قلم لکھنؤ کے روح رواں جناب معید رہبر اور ان کے رفقاء کی مساعی قابل صد تحسین ہیں .میں اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر منتظمین اور تمام شرکاء کو دلی مبارک باد پیش لرتا ہوں ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ امید ہے کہ آپ سب اسی طرح اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے اپنی مساعی جاری رکھیں گے ، جزاکم اللہ فی الدارین خیرا۔
مہمان خصوصی جناب اطیع اللہ ساحل نے اظہار خیال کرتے ہوے کہا:دبستانِ اہلِ قلم کا ستائسواں طرحی رباعی الحمدللہ گزشتہ مشاعروں کی طرح بہت کامیاب رہا اور یہ کاروان رباعی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے امید ہے کہ آگے چل کر اور لوگ بھی اس مشاعرے کا حصہ بنیں.میں دبستانِ اہلِ قلم لکھنؤ کا بیحد ممنون کہ اس بار اس کے ذمہ داران نے مجھ کو مہمان خصوصی بنایا.
اطیع اللہ انصاری ساحل نے کہا:اس طرحی رباعی مشاعرہ میں شرکت کرنے والے شعراء کرام کے نام مندرجہ ہیں:
تنویر پھول، اطیع اللہ ساحل، ڈاکٹر مخمور کاکوروی، معید رہبر لکھنوی، ارشد بستوی، یاور نقوی، سمیر حسین، انور صبا بنارسی، بی ایم خان معالے، ملک نوید بھوپالی، صدر عالم، کامل ہتھوروی، نور محمد یاس، کاوش شوکتی، مسعود جعفری، سروش لکھنوی، عمران خان تشنہ، زاہد کونچوی، سراج الدین سیف، اشفاق علی گلشن خیر آبادی، عرفان بارہ بنکوی، ناز پرتاپ گڑھی، آل راشد رضوی، ممتاز منور، ڈاکٹر عبد الحق امام، شاذ جہانی، اعجاز ابطحی، سعیدہ جعفری، آزاد مانجھا گڑھی، زبیر انصاری، التمش شیراز، ڈاکٹر عزیز خیر آبادی، فیضان جلال پوری، مسلم حسین لکھنوی، نفیس سیتاپوری، قیصر عباس قیصر، زین رضا کراچی، ضیا کاظم تقوی، افشاں رفعت، احمد جاسم، تعظیم احمد، عطا ابن فطرت عطا،معین فخر معین، ارشد طالب۔
آخر میں جنرل سکریٹری معید رہبر نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور یہ اعلان کیا کہ یہ رباعی مشاعرہ ہر ہفتہ منعقد ہوگا جس میں اکابرین شعراء میں سے کسی کی بھی رباعی کا مصرع دیا جا سکتا ہے۔
یہ مشاعرہ مہذب لکھنوی کے مصرعۂ طرح ( ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی ) پر منعقد ہوا۔
منتخب رباعیات
پیغام محبت کا سناتا کوئی
توحید کی قندیل جلاتا کوئی
کعبے میں جو بت رکھے تھے ، کہتے تھے سبھی
اللہ سے بندوں کو ملاتا کوئی
تنویر پھول ، نیویارک : امریکہ
گلشن کی طرح دل کو سجاتا کوئی
چاہت کا حسیں پھول کھلاتا کوئی
معمور جو کردیتی مری روح تلک
خوشبو وہ محبت کی لٹاتا کوئی
اطیع اللہ انصاری ساحل گورکھپوری
طوفان حوادث سے بچاتا کوئی
دکھ درد میں میرے نظر آتا کوئی
اس بھیڑ میں دنیا کی اکیلا نہیں میں
مجھ کو بھی یہ احساس دلاتا کوئی
ڈاکٹر مخمور کاکوروی
بھٹکا ہوں مجھے راہ دکھاتا کوئی
منزل کی طرف کھینچ کے لاتا کوئی
گمراہی لے آئی مجھے آج وہاں
جس راہ پہ آتا ہے نہ جاتا کوئی
معید رہبر لکھنوی
نظروں میں کوئی، دل میں سماتا کوئی
انسانوں میں انساں نظر آتا کوئی
لہجے میں ہے پیوست فقط کیوں تلخی
کیوں کر نہیں الفت سے بلاتا کوئی
ارشد بستوی
حسرت کو مری دل سے لگاتا کوئی
زلفوں کے سائے میں بٹھاتا کوئی
جب وقت لپٹ جاتا عروس شب سے
تب کاکُل عشرت پہ سلاتا کوئی
یاور نقوی
جاگی ہوئی آنکھوں میں سماتا کوئی
سوئے ہوئے جذبوں کو جگاتا کوئی
ویران سرائے تو نہیں دل اپنا
اس گھر میں نظر کیوں نہیں آتا کوئی
نور محمد یاس
ہے پیڑ تو دنیا میں لگاتا کوئی
پھل اس کے مگر اور ہے کھاتا کوئی
کب تجھ کو یہ پھل ملتے، اگر تیرے لیے
یہ باغ نہ یوں چھوڑ کے جاتا کوئی
کاوش شوکتی
ارمان کبھی ۔۔۔دل میں جگاتا کوئ
"ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئ”
ہمراہ جو چلتا۔۔۔ مرے سایہ بن کر
اس طرح مرا۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ نبھاتا کو
مسعود جعفری
تم کون ہو ہم کیا ہیں بتاتا کوئی
اک بار ہمیں تم سے ملاتا کوئی کوئی
کیا دل میں ہمارے ہے بتاتے لیکن
دونوں کا تعارف تو کراتا کوئی
سروش لکھنوی
ہے عشق وفا کیا یہ بتاتا کوئی
الفت کا ہمیں پاٹھ پڑھاتا کوئی
دریائے محبت میں اتر جاتا گر
ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی
عمران خان تشنہ جرولی
عزت سے غریبوں کو بٹھاتا کوئی
کھانا بھی انہیں ساتھ کھلاتا کوئی
وہ لوگ محبت کے بہت بھوکے ہیں
کاش ان کو محبت سے بلاتا کوئی
زاہد کونچوی جھانسی
الفت بھی کوئی شے ہے بتاتا کوئی
انسانیت انساں کو سکھاتا کوئی
مٹ جاتا جہاں بھر سے اندھیروں کا نظام
تعلیم کی وہ شمع جلاتا کوئی
سراج الدین سیف
نغمات وفا دہر میں گاتا کوئی
یوں درد کا رشتہ بھی نبھاتا کوئی
نفرت کی ہوا سے جو اٹھے ہیں شعلے
باران محبت سے بجھاتا کوئی
اشفاق علی گلشن خیرآبادی
اک بزمِ مَدارات سجاتا کوئی
پھر صبح تلک شب میں جگاتا کوئی
قاصد کوئی آتا ہمیں گھر پر لینے
”ہم کو بھی محبّت سے بُلاتا کوئی”
عرفان بارہ بنکوی – لکھنؤ
دِل میرا کبھی کاش چراتا کوئی۔
آداب محبّت کے سکھاتا کوئی۔
سنسان پڑا ہے یہ مرا جادہ۶ دل۔
اِس سے بھی کبھی آتا، جاتا کوئی۔
( "ناز” پرتاپ گڑھی )
ایثار کا جلوہ نظر آتا کوئی
آغوش میں شفقت سے بیٹھاتا کوئی
تقدیر نے کر دی ہے جدائی ماں سے
"ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی”
سید آل راشد رضوی
کیا شان تھی عظمت تھی بتاتا کوئی
اوصاف بھی گر ان کے گناتا کوئی
نو نسل کو معلوم نہیں ہے کچھ بھی
اسلاف کے قصے ہی سناتا کوئی
ڈاکٹر ممتاز منور، پونے . . . انڈیا
اے کاش خدا سے دل لگاتا کوئی
شیطانی فتنے نہ اٹھاتا کوئی
عرفان کا وہ رمز سمجھ لیتا تو
معبؤد کو اپ اپنے میں پاتا کوئی
ڈاکٹر عبدالحق امام گورکھپور یوپی
اِس قَوم کو سوتے سے جگاتا کوئ
کج رَو کو رہِ راست پہ لاتا کوئ
نفرت کا سبق سب کو سِکھانے کی جگہ
پَیغام اخُوّت کا سُناتا کوئ
شاذؔ جہانی، نوئڈا
انصاف کی بستی کو بساتا کوئی
سوئے ہیں ضمیر ان کو جگاتا کوئی
اعجاز نے مدت سے نہ دیکھے خوش خواب
روتے ہوئے خوابوں کو ہنساتا کوئی
اعجاز ابطحی
بے دین کو دیں دار بناتا کوئ
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا کوئ
مل جاتا سہارا بھی کسی مفلس کو
نادار کی امداد کو آتا کوئ
سعیدہ جعفری
سویا جو تھا ارمان جگاتا کوئی
الفت کا حسیں خواب دکھاتا کوئی
بس آس لگائے یہی بیٹھے ہی رہے
"ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی۔”
آزاد مانجھا گڑھی۔
شدّت سے کسی کو ہے ستاتا کوئی
اشکوں سے نہیں یوں ہی نہاتا کوئی
افسوس یہ ہے بارش غم کی خاطر
چھتری ہے کوئی اور نہ ہے چھاتا کوئی
زبیر انصاری
دنیا کو رہِ عشق دکھاتا کوئی
ہے جسم بری چیز بتاتا کوئی
ہم حسن کے دھتکارے ہوۓ ہیں شیراؔز
"ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی”
التمش شیراؔز صدیقی
الفت کے چراغوں کو جلاتا کوئی
نفرت کے اندھیروں کو مٹاتا کوئی
کیسی ہے گھٹن بوجھ پڑا سانسوں پر
حاجت ہے مسیحا یہاں آتا کوئی
ڈاکٹر عزیز خیر آبادی
ساون کا ہمیں گیت سناتا کوئ
اس روٹھے ہوئے دل کو مناتا کوئی
بیٹھے رہے ہم آس لگاۓ گھر میں
ہم کو بھی محبّت سے بلاتا کوئی
فیضان جلالپوری
فرہاد نہ مجنوں نظر آتا کوئی
دیوانہ پن پھر نہ دکھاتا کوئی
محبوبہ عاشق کو اگر مل جاتی
صحرا کی کیوں خاک اڑاتا کوئی
مسلم حسین لکھنوی
جب کام کسی کے نہیں آتا کوئی
وہ دہر میں اپنا نہیں پاتا کوئی
دھتکارنے والے کو کبھی دنیا میں
سینے سے نہیں اپنے لگاتا کوئی
نفیس سیتاپوری
آنسو غمِ سرور میں لٹاتا کوئی
جنت میں محل اپنا بناتا کوئی
رحمت تو کھڑی دیکھ رہی تھی رستہ
چل کر درِ شبیر پہ آتا کوئی
قیصر عبّاس قیصر
میداں میں اگر عزم دکھاتا کوئی
پھر ان کے قصیدے بھی سناتا کوئی
کرّار انہیں مانتے حیدر کی طرح
چولیں درِ خیبر کی ہلاتا کوئی
زین رضا
شکوہ نہ زباں پر کبھی لاتا کوئی
عرفان ولایت کا جو پاتا کوئی
ہر سمت نظر آتا شریعت کا نظام
اک شمع سے سو شمعیں جلاتا کوئی
سیّد ضیا کاظم تقوی (ضیا تقوی)
ہم کو بھی کبھی اپنا بناتا کوئ
بے شک نہ مرے ناز اٹھاتا کوئی
اتنی سی تمنا دل معصوم کی تھی
ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی
افشاں رفعت
صدقہ سرِ اقدس کا لٹاتا کوٸی
حق اپنا ہمارے پہ جتاتا کوٸی
قدموں میں پڑے رہتے محبت سے ہم
احسان صداقت کے جتاتا کوٸی
احمد جاسم
خوش ہو کے گلے دل سے لگاتا کوئی
نظروں کے اشاروں سے چلاتا کوئی
پا یا نہیں دنیا میں کسی کو ہم نے
بے آسروں کو پاس بٹھاتا کوئی
تعظیم أحمد محمدی کھیری یوپی
آئینہ مرے روبرو آتا کوئی
اور عیب مرے مجھ کو دکھاتا کوئی
شاید کہ سنور جاتا مرا مستقبل
اس طرح مرا ساتھ نبھاتا کوئی
ڈاکٹر عطا ابنِ فطرت عطاؔ
کچھ خواب محبت کے دکھاتا کوئی
اپنے لئے بھی آنسو بہا تا کوئی
سارے ہی زمانے کو بھلا دیتے گر
ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی
معین فخر معین
سوئی ہوئی ملت کو جگاتا کوئی
ماضی کی اسے یاد دلاتا کوئی
دنیا تو کبھی زیر اثر تھی اسکے
احساس اسے اسکا دلاتا کوئی
ارشد طالب
دستور وفا ہم سے نبھاتا کوئی
توقیر ہماری بھی بڑھاتا کوئی
قسمت کا ہماری بھی چمکتا تارہ
ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی ۔
کامل ہتھورا باندہ
لب پر۔ تو مرا نام نہ لاتا کوئی
محفل میں کہاں پاس بٹھاتا کوئی
ہوتی نہ اگر پاس جہاں کی دولت
ہرگز ۔نہ مُجھے اپنا بناتا کوئی
صدر عالم
ہر زخم مرا اپنا بتاتا کوئی
آئینہ مرا بن کے دکھاتا کوئی
پھولوں کی قبا اوڑھ کے آئے ہیں لوگ
زخموں کی ردا اوڑھ کے آتا کوئی
ملک نوید۔ بھوپال
اے کاش ہمیں اپنا بناتا کوئی
دل کے کسی کونے میں بساتا کوئی
بے خوف چلے جاتے اسے گھر ملنے
"ہم کو بھی محبت سے بلاتا کوئی”
بی ایم خان مَعَالے اچلپوری
اپنا تا نہ، بس اپنا بتاتا کوئی
اِتنا ہی فقط رشتہ نبھاتا کوئی
رہتی ہے تمنّا یہی اِس دل میں ،صبا،
،، ہم کو بھی محبّت سے بلاتا کوئی ،،
انور،صبا،بنارسی
حق اپنے لیے مجھ پہ جتاتا کوئی
ناراض اگر ہوتا مناتا کوئی
ہو جاتی کبھی دیر اگر آنے میں
اِک سانس میں سو بات سناتا کوئی
سمیر حسین