ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے موصوف تہران پہنچے تھے،جہاں ان پر میزائل حملہ کیا گیا
تہران (یو این آئی) حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اپنی رہائش گاہ پر اسرائیلی حملے میں مارے گئے ہیں۔یہ اطلاع آج فلسطینی تحریک حماس نے دی۔ حماس نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ ’’اسلامی مزاحمتی تحریک حماس ہمارے عظیم فلسطینی عوام کے بیٹوں سے اظہار تعزیت کرتی ہے… تحریک کے سربراہ اسماعیل ھنیہ… ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد تہران میں اپنی رہائش گاہ پر غدار صہیونی (اسرائیلی) حملے میں مارے گئے ۔‘‘
فلسطینی تنظیم حماس نے آج بدھ کے روز اعلان میں بتایا ہے کہ تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ جاں بحق ہو گئے ہیں۔ایرانی میڈیا نے پاسداران انقلاب کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت تہران میں ہوئی۔
غیرملکی رپورٹ کے مطابق تہران میں ہنیہ کی قیام گاہ پر مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے حملہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ایک میزائل کے ذریعے ہنیہ کے جسم کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔اس کارروائی میں اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ان کے ساتھی وسیم ابو شعبان میں جاں بحق ہوئے ہیں۔حماس کے سربراہ کو آخری بار تہران میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں دیکھا گیا تھا۔دریں اثناءفلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے حماس سربراہ اسماعیل ھنیہ کی اسرائیل کے ایک حملے سے قتل کیے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ اسرائیلی حملہ ایرانی دارالحکومت تہران میں بدھ کی صبح کیا گیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر کا یہ بیان فلسطینی خبر رساں ادارے ‘ وفا ‘ نے رپورٹ کیا ہے۔
اسی درمیان حمود عباس نے حماس سربراہ کے اس قتل کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا یہ بہت سنگین پھیلاؤ کی نشاندہی ہے۔
انہوں نے کہا ‘ ہمارے لوگ اور افواج متحد ہیں۔ میں ان سے اپیل کروں گا کہ تحمل کے ساتھ اپنے مقصد یعنی اسرائیلی قبضے کے خلاف کھڑے رہیں۔ اسماعیل ھنیہ کی ہلاکت اسرائیل کا نیا جنگی جرم ہے۔ ہم حماس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب ہمیں ضرور اکھٹے ہو جانا چاہیے۔ ‘
اپنے ایک الگ بیان میں حماس نے اسماعیل ھنیہ کے قتل پر سوگ کا اعلان کیا ہے۔ جنہیں ایک صیہونی حملے میں شہید کیا گیا ہے۔
اس بیچ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہنیہ کے ’بزدلانہ‘ قتل پر بھرپور جواب دیں گے اور ایران ’اپنی علاقائی سالمیت، وقار اور وقار کا دفاع کرے گا‘۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے ایک بیان میں ہنیہ کو ایک ’بہادر رہنما‘ قرار دیا۔حماس کے سیاسی رہنما، جو قطر میں مقیم تھے، پیزشکیان کی صدارتی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران کا دورہ کر رہے تھے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ’تہران کا فرض‘ ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل جس نے اب تک ہنیہ کے قتل کی ذمہ واری قبول نہیں کی، نے ’سخت سزا‘ کی بنیاد فراہم کی ہے۔
دریں اثناء قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ہلاکت کو ‘گھناؤنا جرم اور بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا ہے۔بیان میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’یہ قتل اور شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کا لاپرواہ اسرائیلی رویہ خطے میں افراتفری کا باعث بنے گا اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔‘اسرائیل نے ابھی تک تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر کوئی درِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
بتادیں کہ اس درمیان فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسماعیل ہنیہ پر حملے اور اُن کی ہلاکت کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ کارروائی ہے اور اس کی وجہ سے خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے۔‘سرکاری خبر رساں ادارے وفا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں انھوں نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف متحد، صبر اور ثابت قدم رہیں۔
ایران میں منگل کی شب ایک حملے میں مارے جانے والے اسماعیل عبدالسلام ہنیہ، جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ حماس کے سیاسی سربراہ تھے جو 2006 میں وزیر اعظم بھی رہے۔
سنہ 1989 میں انھیں اسرائیل نے تین سال کے لیے قید کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھیں دیگر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان سرحد پر بے دخل کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک سال تک جلا وطن رہے۔تاہم وہ ایک سال بعد غزہ لوٹے اور 1997 میں انھیں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ متعین کر دیا گیا۔
16 فروری سنہ 2006 میں حماس نے انھیں فلسطین کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور اسی ماہ کی 20 تاریخ کو انھوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔سنہ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انھیں برطرف کر دیا جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ بعد میں اسماعیل ہنیہ نے فتح کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا۔
چھ مئی 2017 کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا۔اسماعیل ہانیہ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی، اور ان کے 13 بچے تھے جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے اور چار پوتے، پوتیاں 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی پر عید کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔حماس سے منسلک میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے بیٹے ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے جب غزہ کی پٹی میں الشاتی کیمپ کے قریب انھیں نشانہ بنایا گیا۔
اسماعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسماعیلہنیہ کے بیٹے حماس کے عسکری ونگ کے اراکین تھے۔