جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی صاحب کا تعزیتی بیان
لاتور ( پریس ریلیز ) انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ نمونہ اسلاف شاگرد شیخ الاسلام ، جنوب ہندکی معروف و مشہور شخصیت مرد مجاہد حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی صاحب ( صدر جمعیۃ علماء مرہٹواڑہ ومہتمم جامعہ اشرفیہ اود گیر ضلع لاتور ) کا آج بتاریخ ۲۸؍ جولائی ۲۰۲۳ بروز جمعہ بوقت صبح ۳؍ بجے 84؍ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے اور وہ اس دار فانی کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لئےاپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ان کے وفات کی خبر سے پورے علاقہ مرہٹواڑہ خاص کرشہر ا دگیر اور اطراف و اکناف کے علمی ودینی حلقوں ،علماء، طلبہ اور عوام میں رنج و غم کا ماحول ہے۔ حضرت مولانا تقریبا ساٹھ سال سے بحیثیت بانی و مہتمم جامعہ اشرفیہ اودگیر میں خدمت انجام دے رہے تھے ہزاروں طلباءان سے فیض یاب ہو کر علاقہ میں دینی خدمت انجام دے رہے ہیںجو ان کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہیں ۔نماز جنازہ بعد نماز عصر عیدگاہ میدان اودگیر میں ادا کی گئی اور تدفین قبرستان مقبرہ نوابان اودگیر میں عمل میں آئی، جنازہ اور تدفین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔
جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی صاحب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضر ت مولانا کے انتقال سے جو میرا ذاتی نقصان اور خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہو نا مشکل ہے ،حضرت رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے براہ راست شاگرد بھی تھے اور خادم بھی رہے، اسی کا اثر تھا کہ حضرت کی ساری زندگی جہد مسلسل اور مجاہدانہ طور پر گزری، 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا تھا جس کی پاداش میں 13 مہینہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔صرف شہر اودگیریا اطراف ہی نہیں بلکہ پورے علاقہ مرہٹواڑا میں آپ کوبے پناہ مقبولیت حاصل تھی علاقہ کے ہر پروگرام اور اجلاس میں مدعوکرنا منتظمین اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے تھے وہ ایک زمانے تک اودگیر نگر پریشد کے کونسلر اور باندھ کام سبھا پتی رہے اس دوران حضرت مولانا نے عوا م کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اقدامات کئے ۔
جمعیۃ علماء کے پلیٹ فام سے انہوں نے بے شمار خدمات انجام دیں، جمعیۃ علماء کو پورے مرہٹواڑہ میں وسعت دینا ضلع و شہر سے لے کر تحصیل ،قصبہ جات اور گائوں دیہاتوں میں کمیٹیاں قائم کرنا اور اسے متحرک رکھنا ان کا تاریخی کارنامہ ہے ۔کل تک وہ سیلاب زدگان کے لئے ریلیف جمع کرنے اورجمعیۃ علماء کی سر گرمیوں میں مصروف رہے ،حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوںسے نوازا تھا۔ گوناگوں صفا ت کے مالک تھے، ان کا سایہ بہت سے فتنوں کے لیے سد باب تھا،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے جو کام بھی شروع کیا، مستقل مزاجی کے ساتھ کیا، جب آپ قطب دکن حضرت مولانا عبد الغفور قریشی رحمۃ اللہ کے حکم پر علم دین حاصل کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئےتو 9؍ سال قیام کرکے فراغت کے بعد ہی اپنے وطن واپس ہوئے،ان کے درسی ساتھیوں میں امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب ( صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند ) و دیگر شامل تھے۔ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعدمدنی نوراللہ مرقدہ سے ان کا اصلاحی تعلق تھا ، قوم و ملت کا درد، ہمدردی،رہنمائی ،بہادری وبیباکی آپ کو اپنے استاذ محترم حضرت مدنیؒ سے ملی تھی۔
حضرت مولانا کو اللہ تبارک و تعالی نے بے شمار خوبیوں سے نوازہ تھا ،ہر کسی سے محبت کر تےتھے ،نہایت مخلص ،انتہائی برد بار ،حلیم و ملنسار مہمان نواز اور تواضع و خاکساری کا نمونہ تھے ،انہوں نے اعمال حسنہ اور دینی خدمات کا کام خوب انجام دیا ہےاللہ تبارک وتعالی ان کی جملہ خدمات کو قبول فرمائے ان کو اس کا بہتر سے بہتر اجر عطاء فرمائے خصوصا جامعہ اشرفیہ اودگیر کو نعم البدل عطا ءفرمائے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم حضرت مولانا کےجملہ پسماندگان خاص طور پرمولانا عطاء الرحمن صاحب مولانا عزیزالرحمن صاحب ،جناب فضل الرحمن صاحب دونوں بیٹیاںاور اہلیہ سمیت دیگرمتعلقین و لواحقین ،جامعہ کے اساتذہ اور طلباءسے تعزیت مسنونہ اور دعاءمغفرت پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی حضرت مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے،صوبے بھر کے تمام جمعیتی احباب ،اراکین ،ائمہ مساجد ، اورذمہ داران مدارس اور عوام الناس سے اپیل ہے کہ وہ مولانا مرحوم کےلئے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کریں۔