نئی دہلی: ہندوستان نے جی 20 ممالک کے قائدین سمیت اس تقریب میں شامل ہونے کیلئے دیگر مہمانوں کا استقبال کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی۔ اس اہم اجلاس کے حوالے سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ان تیاروں میں یہ بھی شامل تھا کہ کہیں کتے انہیں پریشان نہ کریں۔ چنانچہ ان کتوں کو”قید” کرنے اوراہم مقامات سے انہیں دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ حکام نے اپنے مہمانوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں آوارہ کتوں کو شہر سے بھگا دیا،مگر یہ ادا نہ تو اپوزیشن کو راس آئی اور نہ ہی جانوروں کی حفاظت اوران کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیموں اور انجمنوں کو،لہٰذا یہ کتے بھی سیاست کے محور میں آگئے اور یوں” ٹوئٹ ٹوئٹ کھیل” بھی شروع ہوگیا۔
ایک اطلاع میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقامی حکام نے دارالحکومت نئی دہلی میں گھومنے والے تقریباً 60 ہزار آوارہ کتوں کا تعاقب کیا اور انہیں کئی گاڑیوں کے ذریعے شہر سے منتقل کردیا گیا۔ خبروں کے مطابق ان کتوں کو آوارہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے بنائی گئی پناہ گاہوں میں بھیج دیا گیا۔
حالانہ حکام نے اپنی کوششوں کو "بھارت منڈاپم” مرکز میں سربراہی اجلاس کے ہیڈکوارٹرز کے قریب اور اطراف کے علاقوں اور ایئرپورٹ کے ارد گرد کے مقامات پر مرکوز رکھا لیکن یہ "محدود ایکشن” تب محدود نہ رہا،جب عالمی میڈیا میں بھی اس خبر کی تشہیر کی جانے لگی۔یہاں یہ تذکرہ لازم ہے کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اس ایشوپر لب کشائی کی اورلکھا کہ جی 20 سربراہی اجلاس کی تیاری میں مودی سرکار کی طرف سے سڑک کے معصوم کتوں پر جو حیران کن مظالم ڈھائے گئے اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔
Watch this video to witness the shocking cruelty inflicted upon innocent street dogs by the Modi government in preparation for the G20 summit.
— Congress (@INCIndia) September 8, 2023
Dogs are being dragged by their necks, beaten with sticks and thrown into cages. They are being denied food and water, and they are… pic.twitter.com/gObDAqiqiq
کہتے ہیں کہ کتے تو کتے ہوتے ہیں،ان کے درد کو کوئی نہیں سمجھتا مگر راہل گاندھی نے تو کتوں کے درد کو اپنا درد سمجھا ،جبھی تو انہوں نے لکھا "کتوں کو گردن سے گھسیٹا جا رہا ہے، لاٹھیوں سے مارا جا رہا ہے اور پنجروں میں ڈالا جا رہا ہے۔ انہیں خوراک اور پانی سے محروم کیا جا رہا ہے، اور انہیں انتہائی دباؤ اور خوف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ ضروری ہے کہ ہم اس طرح کی ہولناک کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کریں اور ان بے آواز متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کریں”۔