نئی دہلی (یو این آئی) شیو سینا (یو بی ٹی) کے لیڈر سنجے راوت نے سامنا میں شائع اپنی تحریر میں دہلی میں جاری جی 20 سربراہی اجلاس کے سلسلے میں مرکز کو نشانہ بناتے ہوئے اسے تفریحی پروگرام قرار دیا ہے۔مسٹر راوت نے دہلی کی چار دن کی بندش کو ناکہ بندی قرار دیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ حکومت کو کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2024 میں مدر آف ڈیموکریسی میں تبدیلی آئے گی۔مسٹر راوت نے سامنا میں لکھا، "ہمارے ملک میں اس وقت حکومت کے زیر اہتمام مختلف تفریحی پروگرام چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی بھی لوگوں کو خوب محظوظ کر رہے ہیں۔ ‘جی-20’ کانفرنس کے موقع پر دہلی کو سجایا گیا ہے۔ 20 ممالک کے سربراہان دہلی پہنچ گئے، ہندوستان کو اس کانفرنس کی میزبانی کا موقع ملا ہے۔مسٹر راوت نے لکھا – تقریب مدھم پڑ گئی ہے۔دہلی بند ہونے پر راوت نے لکھا، میں دوسرے ممالک میں اس طرح کی کانفرنسوں میں گیا ہوں۔ وہاں تقریب اس طرح منائی جاتی ہے کہ لوگوں کو کم سے کم پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن ہمارے ملک میں اس طرح کے فنکشنز کا مطلب عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جی 20 کانفرنس میں روس اور چین کے صدور کی عدم موجودگی پر راوت نے طنزیہ انداز میں لکھا، جی 20 کے لیے 20 ممالک کے سربراہان دہلی آ رہے ہیں۔ امریکہ کے جو بائیڈن اور چین اور روس کے سربراہان مملکت ان میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے تقریب کچھ دھیمی ہو گئی۔انہوں نے لکھا، تاکہ دہلی کی غربت، بدانتظامی اور کچی بستیاں نظر نہ آئیں، ایسے کئی حصوں کو رنگ برنگے پردوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ حکومت گزشتہ 8-9 سالوں میں اس غربت کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اسے ڈھانپنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ مسٹر راوت نے لکھا، دہلی میں بہت سے غیر ملکی مہمان ہیں، لیکن ماحول پھیکا ہے۔
پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس پرمسٹر راوت نے لکھا، دعوت نامہ آ گیا ہے، لیکن کیا یہ دعوت شادی، یجنوپاوت سنسکار، کسی کی یوم پیدائش یا یوم وفات یا کچھ اور ہے؟ یہ بات مودی سرکار کے ذہن میں آئی تو انہوں نے سیشن کی تقریب منعقد کی اور دعوت نامہ دیا۔انہوں نے کہا کہ بھوسے سے بھرے لوگوں کو کرسیوں پر بٹھا دیا گیا ہے اور صرف دو چار لوگ حکومت چلا رہے ہیں۔ قوم بے روزگار اور بھوکی ہے، اس کی پرواہ کون کرے گا؟ ملک میں صرف ورزش اور تفریحی پروگرام چل رہے ہیں۔
شیوسینا یو بی ٹی لیڈر نے جی 20 کانفرنس میں ملک کے نام بھارت کے استعمال پر بھی حملہ کیا۔ انہوں نے لکھا – ہم نے پہلی بار ایسی حکومت دیکھی ہے جو آئین کے ذریعہ قبول کردہ ‘نام’ سے خوفزدہ ہے۔ مودی سرکار نے جان بوجھ کر ’انڈیا‘ کا نام بدل کر ’جمہوریہ بھارت‘ کر دیا۔ جی-20 نامی ایک تفریحی تقریب کے لیے، اس نے ‘صدر جمہوریہ بھارت’ کے نام سے دعوتی کارڈ چھاپے ہوئے تھے۔ انھوں نے لکھا، ‘ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر، نہرو سے لے کر مودی تک سبھی نے دنیا کا سفر کیا۔ حیرت ہے کہ مودی سرکار کو انڈیاکے نام سے اتنی نفرت ہے۔
سامنا میں لکھا گیا، انڈیااتحاد کا سامنا کرنا مشکل ہے۔ اسی لیے آمروں نے ملک کا نام بدل دیا۔ ’انڈیا‘ کو بدل کر بھارت کر دیا گیا، لیکن آئین میں اس انداز میں بھارت اور انڈیادونوں نام ہیں۔ اس لیے مودی یا سنگھ کے اثر کی وجہ سے ‘انڈیا’ نام کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
راوت نے یہ بھی کہا کہ انڈیا کو بھارت کہنے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر انڈیاکی برانڈ ویلیو لامحدود ہے۔ کوئی بھی حکومت اتنی بے وقوف نہیں ہوگی کہ اس برانڈ ویلیو کو تباہ کر دے۔ دنیا نے انڈیاکے نام سے ملک کی منظوری دی ہے۔ اس برانڈ کو توڑنا معاشی سپر پاور بننے کے خواب کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔مسٹر راوت نے کہا کہ ہندوستانی حکومت نے غیر ملکی مہمانوں کو بھارت کا مطلب سمجھنے کے لیے مدر آف ڈیموکریسی کے نام سے ایک میگزین شائع کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘بھارت ملک کا سرکاری نام ہے’۔ اس کا تذکرہ آئین اور 1946-48 کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں میں کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ 2024 کے بعد ‘مدر آف ڈیموکریسی’ میں تبدیلی آئے گی۔ ملک کو نیا وزیراعظم ملے گا۔ جس کی جمہوریت سے محبت دکھاوے اور اقتدار کا مطلب کاروبار نہیں ہو گا۔ تب تک حکومتی تماشہ برداشت کرتے ہیں۔