واشنگٹن(ایجنسیاں)چین میں کرونا وائرس کے کنٹرول کے لیے نافذ کردہ ‘زیرو کووڈ پالیسی’ کے خاتمے کے ساتھ ہی اچانک وبا کے لاکھوں کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے بعد ماہرین اب خدشہ ظاہر کر رہے ہیں ممکنہ طور پر دنیا کو وبا کی ایک نئی قسم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔چین نے رواں ماہ ہی زیرو کووڈ پالیسی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی سال کے دوسرے ہفتے سے غیر ملکی مسافروں کے چین آنے پر قرنطینہ کی شرط ختم کر دی جائے گی۔چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے وبا سے متاثر ہونے والے افراد یا اموات کے اعداد و شمار کا اجرا بھی بند کر دیا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں کے حوالے سے اب بس اندازے ہی لگائے جا رہے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں وہاں سینکڑوں اور ہزاروں افراد کرونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔
چین کے یہ اقدامات ان پابندیوں کے برعکس ہیں جو کہ کرونا وبا کے آغاز پر اختیار کی گئی تھیں۔زیرو کووڈ پالیسی کے خاتمے کے بعد مختلف اسپتالوں اور مردہ خانوں میں انتہائی رش کی بھی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جب کہ ماہرین اب ان خدشات کا شکار ہیں کہ چین اب وبا کی نئی اقسام کو بڑھاوا دینے کا مرکز بن سکتا ہے۔کرونا وبا سے اب تک دنیا کی آبادی کے لگ بھگ پانچویں حصے کے متاثر ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں جب کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں جن کا مدافعتی نظام وبا کی گزشتہ اقسام کا مقابلہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتا تھا جب کہ ان لوگوں میں سے بڑی تعداد اب بھی ویکسین لگوانے سے محروم ہے۔عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ سومیہ سوامیناتھن کا کہنا ہے کہ چین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ وبا کے خلاف مدافعت کے قابل نہیں ہے کیوں کہ وہاں بڑی عمر کے افراد بہت زیادہ ہیں جب کہ ان میں سے بھی اکثریت کو کرونا کی ویکسین نہیں دی گئی یا انہیں بوسٹر شاٹس نہیں لگائے گئے۔ان کے مطابق چین کی صورتِ حال پر نظر رکھنا ہوگی کہ وہاں سے وبا کی نئی اقسام تو جنم نہیں لے رہیں۔
چین میں کرونا وائرس کے کیسز میں اچانک ہونے والے اضافے کے سبب کئی ممالک نے حفاظتی اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔امریکہ، اٹلی، جاپان، بھارت اور ملائیشیا نے رواں ہفتے اعلان کیا ہے کہ وہ چین سے آنے والے مسافروں کی صحت کے حوالے سے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق جینیوا یونیورسٹی کے گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر انتونیو فلاہوت کہتے ہیں کہ دنیا میں ایک دم ایک ارب 40 کروڑ لوگ وبا کا شکار ہونے لگیں تو اس سے ایسے عوامل جنم لیتے ہیں جس میں کرونا کی نئی اقسام سامنے آ سکتی ہیں۔فرانس کی لیون یونیورسٹی سے وابستہ وبائی امراض کے ماہر برونو لینا نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار ’لا خوا‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ چین ممکن طور پر کرونا وائرس کی نئی اقسام کا مرکز بن سکتا ہے۔
امریکہ کے حکام یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ کرونا وبا سے متعلق چین سے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں جس سے صحت کے ماہرین کے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ یہ ممکن بنا سکیں کہ وبا کی نئی اقسام کیا ہو سکتی ہیں اور ان کے پھیلنے سے قبل ہی ایسے اقدامات تجویز کیے جا سکیں، جو وبا کی نئی قسم سے زیادہ افراد کو محفوظ بنائے۔
ہندوستان اور جاپان کہہ چکے ہیں وہ چین سے آنے والے افراد کے لیے وبا کا پی سی آر ٹیسٹ لازمی قرار دیں گے۔اٹلی نے بھی کہا ہے کہ چین سے آنے والوں تمام مسافروں کے کرونا ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
فرانس کے صدر نے بھی حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایسے انتظامات کریں جس سے وبا کی صورتِ حال کنٹرول میں رہے۔یورپین کمیشن نے اس حوالے سے اجلاس بھی طلب کر لیا ہے تاکہ چین میں کرونا کی صورتِ حال پر یورپی ممالک اقدامات کر سکیں۔ماہرین کے مطابق چین سے شفاف معلومات سامنے نہ آنے کے بعد ان ممالک کا یہی ایک اقدام ہو سکتا ہے۔
برطانیہ نے بھی کہا ہے کہ چین سے آنے والے مسافروں کے حوالے سے اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برطانیہ بھی چین سے آنے والے مسافروں کے لیے کرونا ٹیسٹ لازمی قرار دے گا۔آسٹریلیا، جرمنی تھائی لینڈ اور تائیوان بھی چین سے آنے والے مسافروں پر اضافی پابندیوں پر غور کر رہے ہیں۔چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بدھ کو میڈیا بریفنگ کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ چین میں کرونا کی صورتِ حال اندازوں کے مطابق اور کنٹرول میں ہے۔چین میں اب تک غیر ملکی افراد کو ویزوں کا اجرا بند ہے جب کہ سیاحوں اور طلبہ کو بھی ویزے جاری نہیں کیے جا رہے۔چین کی جانب سے قرنطینہ کی شرط ختم کیے جانے کے اعلان کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چینی شہری بیرونِ ملک اب زیادہ بڑی تعداد میں سفر کریں گے کیوں کہ ملک واپسی پر انہیں قرنطینہ میں نہیں رہنا ہوگا۔دوسری جانب چین میں آئندہ برس جنوری کے وسط میں نئے سال کے حوالے سے بڑی تعداد میں شہری اپنے آبائی علاقوں کا سفر کریں گے۔چین میں جنوری کے وسط سے فروری کے آخر تک شہریوں کے نئے سال کے حوالے سے اندرونِ ملک سفر میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے میں وبا کے پھیلنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔