آئے دن ‘جہاں سے آئی ہو، وہاں واپس جاؤ‘ جیسے طعنے سننے والی افغانی النسل خاتون کی کہانی،خود اُن کی زبانی
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):فاطمہ پیمان کا آسٹریلیا کی پہلی حجاب پہننے والی رکن پارلیمان بننے کی طرف سفر اس وقت شروع ہوا جب یونیورسٹی میں ایک ہم جماعت نے ان کے ہیڈ اسکارف کا مذاق اڑایا تھا۔ فاطمہ شعبہ دوا سازی کی طالبہ رہی ہیں۔ انہوں نے بچپن میں اپنی فیملی کے ساتھ افغانستان سے جان بچا کر آسٹریلیا پہنچنے کے بعد ہمیشہ یہی محسوس کیا تھا کہ آسٹریلوی معاشرہ انہیں پوری طرح قبول کرتا ہے۔ تاہم جب یونیورسٹی کے ایک ٹیوٹوریل کے دوران ان کے ہیڈ اسکارف پر انہی کے ایک ساتھی نے ان کا تمسخر اڑایا، تو انہیں احساس ہوا کہ آسٹریلوی معاشرے میں بھی ایسے عناصر ہیں، جو عدم روا داری کا شکار ہیں، تو انہوں نے سیاسی طور پر فعال ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جرمن خبر رساں ادارہ ڈوئچ ویلے کی اردو سروس نے ان کی سیاسی زندگی کی کہانی کچھ یوں بیان کی ہے۔
مغربی آسٹریلیا کے ایک حصے سے نئی سینیٹر منتخب ہونے والی فاطمہ پیمان نے منگل کے روز اپنی اولین تقریر میں اپنے خاندان کی ہجرت کی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی فیملی افغانستان سے بھاگ کر پاکستان گئی تھی۔ بعد ازاں اس خاندان نے آسٹریلیا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور شہر پرتھ میں آ کر وہاں آباد ہو گیا۔ فاطمہ کے والد عبدالوکیل پیمان 1999ء میں پاکستان سے رخصتی کے بعد ایک کشتی کے ذریعے آسٹریلیا آئے تھے، جہاں انہوں نے چار سال تک بہت محنت کی اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے کہ ان کے اہل خانہ بھی آسٹریلیا پہنچ جائیں اور سارا خاندان دوبارہ مل کر زندگی بسر کرنے لگے۔
فاطمہ پیمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے آسٹریلیا میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا، انہیں ان کی محنت کی بہت کم اجرت دی جاتی تھی اور روزگار کے حصول کے سلسلے میں بھی انہیں عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم والد کی محنت اور قربانیوں کی وجہ سے فاطمہ کو ایک خوشحال بچپن ملا۔ انہوں نے آسٹریلین سینیٹ میں اپنی پہلی تقریر میں کہا،” مجھے پہلی بار اپنے اجنبی ہونے یا اس معاشرے میں تسلیم شدہ نہ سمجھے جانے کا تجربہ یونیورسٹی میں خود میرے ایک ساتھی طالب علم کی طرف سے میرے حجاب کا مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ ستائیس سالہ پیمان نے مزید کہا، ”میں نے پروان چڑھتے ہوئے خود کو کبھی بھی مقامی بچوں سے مختلف محسوس نہیں کیا تھا۔ پرتھ کا علاقہ میرے لیے میرے گھر کی طرح تھا۔ آپ کا گھر وہاں ہوتا ہے جہاں آپ کا دل ہو۔ اور میرا دل میری فیملی کے ساتھ تھا۔‘‘
فاطمہ پیمان نے ملکی سینیٹ میں اپنے احساسات کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہا”میں نے خود کو کچھ مختلف یا عجیب محسوس نہیں کیا، میں نے اپنا آپ کسی بھی دوسرے آسٹریلوی بچے کی طرح محسوس کیا، پرتھ کے شمالی مضافات میں پلی بڑھی۔ یونیورسٹی تک پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی رہی اور معاشرے کی ایک مفید رکن بننے کی امید میں اپنا سفر جاری رکھا۔ لیکن آئے دن ‘جہاں سے آئی ہو، وہاں واپس جاؤ‘ جیسے تبصروں یا انتہا پسندانہ رویوں نے مجھے یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیا کہ میرا تعلق اس معاشرے سے نہیں ہے۔‘‘
سینیٹر فاطمہ پیمان نے منگل کی رات پارلیمنٹ میں اپنی اولین تقریر کے دوران خاص طور پر اپنا حجاب پہن رکھا تھا اور وہ اپنے مرحوم والد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہو گئیں۔
فاطمہ نے سینیٹر بننے کے بعد اپنے والد سے متعلق کچھ نئی کہانیاں بھی سنائیں اور نئے انکشافات بھی کیے۔ ان کے والد 2018 ء میں خون کے سرطان کا شکار ہو کر انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو سینیٹر بنتا نہ دیکھ سکے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر محض 47 سال تھی۔ فاطمہ نے اپنے والد کے آسٹریلیا آنے کے گیارہ روزہ سفر کی کچھ تکلیف دہ تفصیلات کا بھی ذکر کیا۔ فاطمہ کے بقول، ”میری ماں بے چینی اور منفی خیالات کے سیلاب میں ڈوبی رہتی تھی، ہر لمحے اس انتظار میں کہ میرے والد کے خیریت سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوئی خبر آئے۔ چار ماہ کے انتظار کے بعد ہمیں میرے والد کے آسٹریلیا پہنچنے کی خوش خبری ملی تھی۔‘‘
فاطمہ اپنے والد عبدالوکیل پیمان، والدہ اور تین چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ جب آسٹریلیا پہنچی تھیں، تو اس وقت ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ پرتھ میں اسلامی کالج میں پانچویں جماعت میں فاطمہ کا داخلہ ہوا۔ فاطمہ کے دادا افغانستان میں کئی سال پہلے پارلیمانی رکن رہ چکے تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا پورا خاندان ملک چھوڑ کر پاکستان چلا گیا تھا۔
آسٹریلیا پہنچنے کے بعد امیگریشن کے سلسلے میں زیر حراست رہنے کے دور میں فاطمہ کے والد نے بہت سخت مشقت کی تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ انہوں نے کچن میں ہیلپر کا کام کیا، ٹیکسی چلائی اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر کئی کئی گھنٹوں کی سخت ڈیوٹی بھی دیتے رہے۔
فاطمہ پیمان پرتھ کے اسلامی کالج کی ہیڈ گرل تھیں، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔
فاطمہ نے جب سینیٹ سے خطاب کیا، اس وقت ان کی والدہ اور دو بھائی، ایک بہن اور بھتیجے بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں شامل ہونا دراصل نوجوانوں کے لیڈر شپ گروپس کا حصہ بننے، پولیس ایڈوائزری گروپس اور مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشنوں میں شمولیت کا محرک بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا، ”میں نے تبدیلی کا حصہ بننے کی امید میں رضاکارانہ طور پر کام شروع کیا تاکہ مجھے معاشرے میں اچھائی پھیلاتے ہوئے دیکھا جائے تو شاید مجھے اس قوم کا ایک برابر کا فرد تسلیم کر لیا جائے۔‘‘ فاطمہ کے مطابق، ”ایک پناہ گزین کی بیٹی کے طور پر جو ایک محفوظ اور بہتر مستقبل کے خواب لے کر اس سرزمین پر آئی تھی، میں نے نظام کو چیلنج کرنے اور یہ دیکھنے کی ہمت کی کہ میں کس حد تک تبدیلی لا سکتی ہوں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی سیاست حتیٰ کہ پارلیمانی ایوان بالا بھی اکثر ‘اجنبیوں سے بیزاری‘ اور نسلی اور مذہبی خوف سے متاثر نظرآتا ہے۔فاطمہ پیمان نے اپنے ساتھی ممبران پارلیمنٹ کو چیلنج کیا کہ وہ تعصب، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو ختم کریں اور ان امور پر صرف لب کشائی ہی نہ کریں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔