سری نگر(یو این آئی) سابق حریت چیرمین اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر عبدالغنی بٹ بدھ کو شمالی کشمیر کے سوپور میں واقع اپنی رہائش گاہ پر مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ بٹنگو، سوپور کے رہائشی تھے اور کئی دہائیوں تک وادی کی سیاست اور سماجی منظرنامے پر نمایاں رہے۔اہل خانہ کے مطابق پروفیسر بٹ نے آج شام اپنی رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین کے حوالے سے اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی وادی بھر میں سوگ کی لہر دوڑ گئی اور مختلف سیاسی، سماجی و مذہبی حلقوں کی جانب سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا ردعمل،
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ایکس پر لکھا:’میں سینئر کشمیری سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کے انتقال کی خبر سن کر افسردہ ہوں۔ اگرچہ ہماری سیاسی نظریات میں زمین و آسمان کا فرق تھا، لیکن میں ہمیشہ انہیں ایک شائستہ اور مہذب انسان کے طور پر یاد رکھوں گا۔ ان کے پاس یہ جرات تھی کہ وہ مکالمے کی وکالت کریں، جب کہ بہت سے لوگ اس وقت صرف تشدد کو ہی واحد راستہ سمجھتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی سے ملاقات بھی کی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ میری تعزیت ان کے اہل خانہ اور چاہنے والوں کے ساتھ ہے۔‘
میرواعظ عمر فاروق کا بیان:جامع مسجد سرینگر کے خطیب اور حریت کانفرنس کے سربراہ میرواعظ مولوی عمر فاروق نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر لکھا:’یہ افسوسناک خبر سنی کہ میں نے ایک مہربان بزرگ، عزیز دوست اور ساتھی، پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کو کھو دیا۔ اِنّا للہ و اِنّا اِلَیہ راجعون۔ یہ ذاتی طور پر میرے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ کشمیر ایک مخلص اور بصیرت رکھنے والے رہنما سے محروم ہو گیا۔‘
محبوبہ مفتی کا ردعمل:پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا:’میں پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کے انتقال کی خبر سن کر گہرے دکھ میں مبتلا ہوں۔ وہ کشمیر کی پرآشوب تاریخ میں اعتدال کی ایک آواز تھے۔ ایک استاد اور مفکر جن کا سیاسی نقطۂ نظر ہمیشہ حقیقت پسندی پر مبنی رہا۔ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے مضبوط داعی تھے اور ان کا اثر گہرا اور دیرپا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ذاتی طور پر، وہ ہمیشہ مجھے شفقت دیتے تھے اور مشکل وقت میں میں نے ان سے حوصلہ پایا۔ اگرچہ ہمارے سیاسی نظریات مختلف تھے، وہ میرے والد مفتی محمد سعید کے قریبی اور محترم دوست رہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘
سجاد غنی لون کی تعزیت:پیپلز کانفرنس کے صدر اور رکن اسمبلی ہندوارہ سجاد غنی لون نے کہا:’پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کے انتقال پر اہل خانہ سے دلی تعزیت۔ وہ صرف ایک سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شخصیت بھی تھے۔ وہ میرے مرحوم والد کے ساتھی تھے اور مجھے ان کے ساتھ طویل نشستوں کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔‘
محمد یوسف تاریگامی کا بیان:سی پی آئی (ایم) کے سینئر رہنما اور کولگام کے رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہا:’پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال کی خبر سن کر دل گرفتہ ہوں۔ میں انہیں طویل عرصے سے جانتا تھا۔ وہ جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ایک نمایاں کردار تھے۔ ان کی عاجزی، فہم و فراست اور عوامی خدمت کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کا خلا پُر ہونا مشکل ہے۔‘
الطاف بخاری کا ردعمل:اپنی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر سید الطاف بخاری نے بھی تعزیت کرتے ہوئے کہا:’پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کے انتقال کی خبر دل دہلا دینے والی ہے۔ اِنّا للہ و اِنّا اِلَیہ راجعون۔ یہ میرے لیے ذاتی نقصان ہے اور آج میرا دل غم سے لبریز ہے۔ وہ میرے والد کے قریبی دوست تھے اور میری زندگی پر ان کے علم اور حکمت نے گہرا اثر ڈالا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور اہل خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے‘۔پروفیسر عبدالغنی بٹ کئی دہائیوں تک حریت کانفرنس اور دیگر سیاسی و علمی میدانوں میں سرگرم رہے۔ وہ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بانیوں میں شامل تھے اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے۔ اپنی علمی بصیرت، اعتدال پسند رویے اور بے باک موقف کے سبب وہ کشمیری سیاست میں ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔












