اسلام آباد: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر 22 اپریل کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور اس سرکاری دورے کے دوران ان کی پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری اور فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق ایرانی صدر پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے اور اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی اس وقت تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں قرار دیا گیا تھا۔
ایران اسرائیل تنازعے کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں بھی یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک ڈرون حملہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہاں شدت پسند گروہ ’جیش العدل‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان نے اس حملے کا جواب دیتے ہوئے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں کارروائی کی اور دعویٰ کیا کہ اس کی جانب سے وہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایرانی صدر کے حالیہ دورے پر پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا کہ صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کا ایجنڈا دونوں ممالک کے درمیان ’دو طرفہ تعلقات کو ترجیح دینا ہے۔‘
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ بہت عرصے سے جاری ہے تاہم اس کی شدت میں اضافہ حالیہ دنوں میں اس وقت ہوا جب یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک میزائل حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سات اراکین سمیت 13 افراد مارے گئے۔اسرائیل نے اس حملے کی باضابطہ ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن خیال یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔ ایران نے اس حملے کے جواب میں 13 اپریل کو میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا۔ ایران کے اس حملے پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر طاقتور ممالک کی جانب سے مذمتی بیان جاری کیے گئے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خطرات ایک بار پھر 19 اپریل کو اس وقت بڑھتے ہوئے دکھائی دیے جب امریکی حکام نے ایران کے علاقے اصفہان میں ایک اور اسرائیلی حملے کی تصدیق کی۔ دوسری جانب ایرانی حکام نے اپنے ملک میں ایسے کسی بھی اسرائیلی حملے کی تردید کی ہے۔ایسی صورتحال میں ایرانی صدر کا دورہ اسلام آباد خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی کی ابتدا کے بعد ابراہیم رئیسی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا ہے۔ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت ایرانی صدر کے پاکستان کے دورے کو طاقتور مغربی ممالک کیسے دیکھیں گے؟ لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پر کیا مؤقف اختیار کیا ہے۔