تہران(ایجنسیاں)سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ایران نے ہفتے کے روز تصدیق کی ہے کہ اس نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو تہران کے جوہری پروگرام کے معائنے کی تعداد بڑھانے کی اجازت دے دی ہے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی اِرنا نے ملک کے جوہری سربراہ محمد اسلامی کے حوالے سے بتایا، "ہم نے صلاحیت میں اضافہ کیا ہے تو قدرتی طور پر معائنے کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا، "جب ہم جوہری سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اور جہاں ہمارا جوہری مواد سے واسطہ پڑتا ہے تو استعمال کی سطح تبدیل کرنے سے قدرتی طور پر نگرانی کی سطح میں بھی تبدیلی آئے گی۔”
اسلامی کے تبصرے جمعہ کو اے ایف پی کی ملاحظہ کردہ آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ کے بعد آئے ہیں جس میں ایران نے نگرانی بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔آئی اے ای اے کی رپورٹ میں کہا گیا، "ایران نے ایجنسی کی درخواست سے اتفاق کیا ہے کہ وہ فورڈو افزودگی کے پلانٹ میں حفاظتی اقدامات کے نفاذ کی کثرت اور شدت میں اضافہ کرے”۔گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے کہا تھا کہ ایران نے فورڈو کو از سرِ نو بنایا تھا تاکہ وہ "60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی پیداوار کی شرح کو خاطر خواہ حد تک بڑھاتے ہوئے” 90 فیصد کے قریب لے جائے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ایران پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کے حق پر اصرار اور اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کا خواہاں ہے۔اسلامی نے کہا، "آئی اے ای اے کو حفاظتی معاہدے اور این پی ٹی کے لائحہ عمل کے اندر نگرانی کے لیے ہمیشہ رسائی حاصل رہی ہے۔ اور ہم نے اس کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی ہے اور ہم ایسا نہیں کریں گے۔”
ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ یا این پی ٹی رکن ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے جوہری مواد کا آئی اے ای اے کی نگرانی میں اعلان کریں اور برقرار رکھیں۔گذشتہ مہینے ایران نے "نئے اور جدید” سینٹری فیوجز کا آغاز کرنے اعلان کیا تھا۔ یہ آئی اے ای اے بورڈ کی ایک قرارداد کے جواب میں تھا جس میں ایجنسی سے تعاون کے فقدان پر تہران کو سرزنش کی گئی تھی۔برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے منگل کے روز تہران کے تازہ ترین اقدامات کی "مذمت” کی جو اس نے اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کے لیے کیے اور "سختی سے زور دیا” کہ وہ انہیں واپس لے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط میں تینوں یورپی طاقتوں نے ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی تمام پابندیوں کو بحال کرنے کے امکان کے بارے میں بات کی تاکہ اسے اس کے جوہری پروگرام کو ترقی دینے سے روکا جائے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران تہران کے ساتھ 2015 کے تاریخی معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد سے مغرب کے ساتھ ایران کی جوہری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔اس معاہدے میں ایران کے جوہری پروگرام پر حدود عائد کرنے کے بدلے پابندیوں میں ریلیف فراہم کیا گیا تھا۔