شرکاء نے ملک کی موجودہ صورتحال پر غوروخوض کیا
نئی دہلی(یواین آئی) جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناارشدمدنی کے زیرصدارت صدر دفترجمعیۃعلماء ہندمیں منعقدہوا۔ اجلاس کے شرکاء نے ملک کی موجودہ صورتحال پر غوروخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت ، شدت پسندی ، امن وقانون کی ابتری ، اقلیتوں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیازی سلوک ،وقف املاک کاتحفظ ، عبادت گاہ ایکٹ کے باوجود مساجد ومقابرکے خلاف فرقہ پرستوں کی جاری مہم ،ہلدوانی میں پولس فائرنگ اورمسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی ، فلسطین میں اسرائیل کی جارحانہ دہشت گردی کے معاملہ پر سخت تشویش کا اظہارکیا گیا اوران جیسے بہت سارے سلگتے مسائل پر تبادلہ خیال ہوا۔ ان خیالات کا اظہارپریس کے لئے جاری ایک ریلیز میں کیا گیا۔
اجلاس میں جامع مسجد گیان واپی مقدمہ اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 کے تعلق سے بھی تجاویز پاس کی گئیں اورکہا گیا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ کیا جسے ملک کے مسلمانوں نے کڑواگھونٹ سمجھ کر پی لیا اور یہ سمجھا کہ اب ملک میں امن و امان قائم ہوجائے گا لیکن اس فیصلے کے بعد ملک کے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے جامع مسجد بنارس گیان واپی، شاہی عیدگاہ متھرا، ٹیلے والی مسجد جیسی تقریبا دو ہزار مسلم عبادت گاہوں پر اپنے دعوے کرنا شروع کردیاہے۔ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991ء کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ اس قانون کو ملک کے حق میں بہتر بتایا لیکن اس کے مؤثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ نچلی عدالتیں مقدمات کی سماعت کررہی ہیں اور محکمہ آثار قدیمہ کھدائی کی اجازت بھی دے رہی ہے جواس قانون کے منافی ہے۔ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ نے آثار قدیمہ کی رپورٹ کی قانونی حیثیت کو مسترد کردیاتھا ، قابل ذکر ہے کہ ۷؍اکتوبر2020 عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حفاظت اور مؤثر نفاذ کے لئے جمعتہ علماء ہند کی پٹیشن زیرسماعت ہے ، عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے لیکن مرکزی حکومت نے اب تک حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ اجلاس میں ہلدوانی پولس فائرنگ کے مہلوکین کو فی کس دولاکھ روپے کی فوری امداد اوروہاں ریلیف کے کام کے لئے مجموعی طورپر 25 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا،خاطی افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے لیگل پینل صلاح و مشورہ کررہا ہے جبکہ مہلوکین کو سرکاری معاوضہ دیئے جانے کے تعلق سے بھی میٹنگ میں مطالبہ کیاگیا ۔مجلس عاملہ کے لئے جاری ایجنڈے کے مطابق جمعیۃعلماء ہند کی آئندہ ٹرم کی صدارت کے لئے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا ، تمام ریاستی یونٹوں نے متفقہ طورپر صرف مولانا ارشدمدنی کی نام کی سفارش کی ، لہذامجلس عاملہ نے جمعیۃعلماء ہند کے آئندہ ٹرم کی صدارت کے لئے مولانا ارشدمدنی کے نام کااعلان کیا اور، مجلس عاملہ نے آج 16فروری سے16مئی تک پورے ملک میں اس ٹرم کی ممبرسازی کااعلان بھی کیا گیا۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں مولانا مدنی نے کہاکہ اس وقت ملک کے حالات جس قدرتشویشناک ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اقتدارکی تبدیلی کے بعد یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ہندوستان فسطائیت کی گرفت میں چلاگیا ہے ، فرقہ پرست اورانتشارپسند قوتوں کا بول بالاہوگیاہے ، انہوں نے آگے کہا کہ ادھر چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتاآرہاہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے نیا نیاتنازعہ کھڑاکرکے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہورہی ہیں بلکہ انہیں کنارے لگادینے کی منصوبہ بندسازشیں ہورہی ہیں ، لیکن اس سب کے باوجودمسلمانوں نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں آگے بھی اسی طرح صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، فرقہ پرست طاقتیں اس وقت بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اورمشتعل کرنے کی کوششیں کرسکتی ہیں ، کیونکہ پارلیمنٹ کا الیکشن ہونے والا ہے ،مولانا مدنی نے کہا کہ پہلے الیکشن تعمیری پروگرام ، روزگاراورتعلیم جیسے بنیادی مسائل کی بنیادپر لڑاجاتاتھا لیکن افسوس فرقہ پرست طاقتوں نے عوام کو مذہبی نشہ پلادیاہے ، اب الیکشن صرف فرقہ واریت کی بنیاد پر لڑاجارہاہے ،انہوں نے کہا کہ پہلے ہم نے ملک کی آزادی کے لئے قربانی دیں اوراب ہمیں اس آزادی کی تحفظ کے لئے قربانی دینی ہوگی اگرہم نے ایسانہیں کیا تووہ دن دورنہیں جب لب کشائی کو بھی ایک سنگین جرم قراردیاجانے لگے گا۔ انہوں نے کہاکہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ، وہ یہ ہندوستان ہرگزنہیں ہے ، ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں بسنے والے تمام لوگ ہمیشہ کی طرح نسل برادری اورمذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں ۔ ملک کے موجودہ سیاسی اورسماجی صورتحال کے تعلق سے حکومتوں کے رویہ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ جو کام عدالتوں کاتھا وہ اب حکومتیں کررہی ہیں ، ایسالگتاہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دورختم ہوگیا ہے ، ان کے منھ سے نکلنے والے الفاظ قانون ہیں اورگھروں کو زمین دوزکرکے موقع پر فیصلہ کرنا قانون کی نئی ریت بن گئی ہے ، ان حالات میں پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اورملک کے آئین اورجمہوریت کو بچانے اورقانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا، لیکن افسوس ممتازماہرین قانون اورسپریم کورٹ وہائی کورٹ کے ریٹائرڈجج عدالتوں اورخاص طورپر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تعلق سے خواہ بابری مسجدکا ہویاجامع مسجد گیان واپی کا ہویادفعہ 370کا کھلے عام مایوسی ، ناامیدی اورنقدونظرکا اظہارکریں توہم جیسے لوگوں کو تشویش کاہونا لازمی ہے ، ان سب کے باوجود ہمارے لئے آخری سہاراعدالتیں ہی رہ جاتی ہیں ۔
ریلیز میں ہلدوانی میں پولس کی بربریت اورظلم کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے اتراکھنڈسرکارسے مطالبہ کیا گیا کہ ہلدوانی میں جو بے گناہ افرادپولس کی گولی سے ہلاک ہوئے ہیں انہیں نہ صرف مناسب معاوضہ دے بلکہ ان کے اہل خانہ میں سے ایک فردکو سرکاری نوکری بھی دے تاکہ متاثرہ خاندانوں کو فاقہ کشی اوردربدری سے بچایاجاسکے ۔ انہوں نے بھیڑپر بلاجواز بے دریغ فائرنگ کرنے والے پولس عملہ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ ہم قانونی اورغیرقانونی کی بحث میں ابھی نہیں پڑنا چاہتے ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ بلاجواز فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے چھ بے گناہ لوگوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑااور دوافراد اب بھی اسپتالوں میں زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلاہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ جن لوگوں پر بلاجواز بربریت کا مظاہرہ کیا گیا یہاں تک کہ چھ ایسے افرادکو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا جو پیشہ سے مزدورتھے اوراپنا کام ختم کرکے گھر واپس لوٹ رہے تھے اب ان پر ہی فساداورتشددکا ساراالزام تھوپ کر نہ صرف انہیں گرفتارکیاجارہا ہے بلکہ ان سے نقصانات کا معاوضہ بھی طلب کیا گیا ہے ، یہ کہاں کاانصاف ہے ؟ بڑاسوال یہ ہے کہ مقامی باشندوں کا جو نقصان ہوا اور جو چھ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اس کاذمہ دارکون ہے ؟ اورکیا اس کی کوئی تفتیش نہیں ہونی چاہئے اورکیا اس کا کوئی جرمانہ طلب نہیں کیا جانا چاہئے ؟انہوں نے کہا کہ پوراہلدوانی شہرنزول کی زمین پر آبادہے ، ایسے میں اگر مسجد اورمدرسہ کو غیر قانونی قراردیکر منہدم کیا جاسکتاہے تووہاں واقع دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو کیوں کر قانونی کہا جاسکتاہے ؟، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسا مذہبی تعصب کی بنیادپر کیاگیااوراس کا مقصدشہرکی فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا اورمسلمانوں کو سبق سکھانا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ریاستی سرکارپولس اہلکاروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی اورمتاثرین کے لئے مناسب معاوضہ کااعلان نہیں کرتی توجلد ہی جمعیۃعلماء ہند اس کے خلاف عدالت کا رخ کرے گی ،
فلسطین میں جاری نسل کشی اورانسانی ہلاکتوں پر سخت غم وغصہ اورتشویش کااظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس صریح ظلم وبربریت کو روکنے میں اقوام متحدہ اورعالمی برادری پوری طرح ناکام رہی ہے ،اس تعلق سے مسلم ممالک اگر قضیہ فلسطین کے تصفیہ کے لئے اب بھی نہ جاگے توکل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی، فلسطین کے غیورعوام جو برسوں سے جو اپنی جانوں کانذرانہ پیش کررہے ہیں وہ اپنے وطن کی آزادی اورقبلہ اول کی بازیابی کے لئے ہے جمعیۃعلماء ہند مظلوم فلسطینیوں کی ہمت ، حوصلہ اورصبرواستقامت کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اوردعاگوہے کہ اللہ ان مجاہدین کے حوصلہ اورہمت کو بلند فرمائے اورہشت گرداسرائیل ناکام فرمائے اورمجاہدین کی نصرت فرمائے آمین ۔
مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ اگر فسطائی جماعتوں اوران کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ اس ظلم وجبر کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے تویہ ان کی خام خیالی ہے ، یہ ہماراملک ہے ہم یہیں پیداہوئے ہیں ہمارے آباواجدادنے اس ملک کی تعمیروترقی میں نہ صرف اہم رول اداکیا ہے بلکہ اس کی آزادی کے لئے اپنی زندگیاں تک قربان کی ہیں،اس لئے ہم ملک میں مسلمان ہی نہیں کسی بھی طبقہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی ، امتیازی سلوک اورظلم وجبر کو برداشت نہیں کرسکتے ۔
اجلاس میں صدرجمعیۃکے علاوہ،نائب صدرمولانا عبدالعلیم فاروقی ،ناظم عمومی مفتی سید معصوثاقب،نائب صدرمولانا سیداسجد مدنی ،مفتی غیاث الدین رحمانی حیدرآباد، مولانا بدراحمد مجبیبی پٹنہ ، مولاناعبداللہ ناصربنارس،قاری شمس الدین کلکتہ، مفتی اشفاق احمد اعظم گڑھ،حاجی سلامت اللہ دہلی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی،مفتی عبدالقیوم منصوری گجرات کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد راشد راجستھان ،مولانا محمد مسلم قاسمی دہلی،مولانا محمد احمد بھوپال ،ایڈوکیٹ شاہد ندیم ممبئی ، مفتی عبدالرازق مظاہری دہلی، مولانا عبدالقیوم مالیگاؤں، مفتی حبیب اللہ جودھپور،وغیرہ شریک ہوئے ۔ اجلاس کا اختتام صدرمحترم کی دعاپرہوا۔