کابل، 15 اکتوبر (یو این آئی) افغانستان میں اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگانے کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے کئی اہم کورسز پر بھی بڑی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں یہ اطلاع دی ہے ۔رپورٹ کے مطابق خواتین کے لیے کورسز کا انتخاب خطے کے لحاظ سے ہے ۔ اس کے تحت خواتین کو تمام صوبوں میں میڈیکل نرسنگ، ٹیچر ٹریننگ اور اسلامک اسٹڈیز کرنے کی اجازت ہے لیکن صحافت کے کچھ کورسز کی اجازت صرف دارالحکومت کابل میں ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ لیکن ویٹرنری سائنس، انجینئرنگ، معاشیات اور زراعت پورے ملک میں خواتین کے لیے محدود ہیں، جبکہ صحافت کا مطالعہ کرنے کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔بڑی عمر کی لڑکیوں کے اسکولوں میں واپس جانے کے لیے صحیح "اسلامی ماحول” پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم اقتدار میں واپسی کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بیشتر صوبوں میں ایسا نہیں ہوا۔ گروپ کے بنیاد پرستوں نے اس کی مخالفت کی ہے ۔ بہت سی لڑکیاں اسکول میں اپنا آخری سال مکمل نہیں کر سکیں کیونکہ اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کے ہائی اسکول جانے پر پابندی لگا دی تھی۔تاہم، طالبان نے فیصلہ کیا کہ جو لڑکیاں اسکول کے آخری سال میں تھیں وہ بھی یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان میں بیٹھ سکتی ہیں۔ حکومت کے نئے ‘فرمان’ کے بعد یہ تجویز قلیل المدتی معلوم ہوتی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق حکام کا خیال ہے کہ اس سال 30 ہزار خواتین سمیت ایک لاکھ طلبہ یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان میں شریک ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی سال مارچ یا اگست میں شروع ہوتا ہے اور عام طور پر داخلہ امتحانات کے نتائج آنے میں دو سے تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، اب یہ یقینی نہیں ہے کہ نتائج کب جاری ہوں گے ۔طالبان کے اصول کے مطابق طلباءاور طالبات الگ الگ امتحان دے رہے ہیں۔ امتحان کے لیے صبح کی شفٹ لڑکوں اور دوپہر کی شفٹ لڑکیوں کے لیے ہے ۔ بعض صوبوں میں جہاں امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے داخلہ امتحان دو یا تین دن میں منعقد کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان نے 6 سے 12 ویں جماعت کے لیے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول دوبارہ نہیں کھولے تو آنے والے برسوں میں یونیورسٹی میں درخواست دینے والی طالبات کی تعداد میں ڈرامائی کمی آئے گی۔طالبان حکام پابندیوں میں نرمی کر رہے ہیں۔ وزارت اعلیٰ تعلیم میں شعبہ امتحانات کے سربراہ عبدالقادر خامش کا کہناہے کہ لڑکیاں اپنے پسندیدہ مضامین میں سے صرف تین یا چار کا انتخاب کر سکتی ہیں۔انہوں نے کہا’ہمیں خواتین کے لیے الگ کلاسز کی ضرورت ہے ۔ بعض علاقوں میں خواتین امیدواروں کی تعداد کم ہے ۔ اسی لیے ہم خواتین کو کچھ کورسز کے لیے درخواست دینے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں‘۔طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کا تعلیمی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے اور گزشتہ سال امریکی زیر قیادت افواج کے انخلاءکے بعد سے تربیت یافتہ ماہرین تعلیم کی نقل مکانی ہوئی ہے ۔طالبان نے ملک کو کئی علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور لڑکیوں کو ان کے باہر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔