فیروزپورجھرکہ میں فسادزدگان کے درمیان پلاٹ اور مکان کیلئے امدادی چیک کی تقسیم کے موقع سے صدرجمعیۃ علماء ہند کا خطاب
نئی دہلی، 15 دسمبر (یو این آئی) ملک میں بڑھتی نفرت اور اشتعال انگیزی کے درمیان جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ملک میں بھائی چارہ اور ہندواورمسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس ملک کو جنت بنانا ہے تو یہاں کے باشندوں کو اپنے آباو اجداد کے بھائی چارہ اور میل ملاپ کے راستے پرچلنا ہوگا۔ مولانا مدنی نے یہ اپیل آج فیروزپور جھرکہ میں ہندو مسلم فسادزدگان کے درمیان پلاٹ اور مکان کیلئے امدادی چیک تقسیم کرتے ہوئے کی۔انہوں نے ملک میں جاری نفرت انگیز ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کی سیاست کا مقابلہ ملک میں بھائی چارہ کی فضا قائم کرکے اور صحیح راستتے پر چل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فساد میں خؤاہ ہندو ملوث ہوں یا مسلمان ہم دونوں کی مذمت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس لئے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اورتشددبرپاکرنے کے لئے کرتے ہیں انہیں اپنے مذہب کا سچاپیروکارنہیں کہا جاسکتا، اس حساس مسئلہ پر ارباب اقتدارکو سنجیدگی سے غورکرنا چاہئے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سیاست داں اقتدارکی خاطر ملک اورعوام کے مسائل کی جگہ صرف اورصرف مذہب کی بنیادپر نفرت کی سیاست کررہے ہیں جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت روز روشن کی عیاں ہے کہ نفرت کی سیاست آپ کو سکون سے رہنے نہیں دے گی اور نہ ہی پڑوس میں رہنے والوں کوچین سے بیٹھنے دے گی۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ آزادی کے بعد سے 75سالوں میں تمام سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو معاشی،تعلیمی اور سیاسی طور پر کمزور کیا اور ہمیشہ ان کو خوفزدہ اور ڈرانے کی منصوبہ بند ی ہوتی رہی ہے، لیکن مسلمان اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند نے فیروزپورجھرکہ میوات میں آج ان فسادزدہ متاثرین کے لئے جن کے مکانوں کو میوات فسادکے بعد انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے بلڈوزکردیاتھا کہ یہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے، ان کو دوبارہ آبادکرنے کے لئے باضابطہ طورپر زمین خریدلی ہے،حالانکہ وہ لوگ ایک زمانے سے ان پہاڑیوں کے دامن میں مکان بناکر رہ رہے تھے، جمعیۃعلماء ہند نے ان فسادمتاثرین میں سے ان 20لوگوں کا انتخاب کیا جن کے پاس نہ کوئی زمین تھی اورنہ رہنے کا مکان، مکان بلڈوزہونے کے بعد بھی یہ لوگ اسی جگہ پر پلاسٹک وغیرہ لگاکر رہ رہے تھے۔
واضح رہے کہ جمعیۃعلمائے ہندنے 22سوگززمین خرید کر رجسٹری کرائی اورایک خاندان کو تقریبا 100گزکا مکان اورپانی کی ٹنکی اورایک مسجد بناکر دینے کااپنا وعدہ پوراکیا، مسجد میں ایسے امام کاانتظام بھی کیا جائے گاجو ان کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دے سکیں گے۔ اس کی رجسٹری کے کاغذات متاثرین کو سونپے گئے جن میں تین ہندو خاندان بھی شامل ہیں۔مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر ان میں فی کس بیس ہزارروپے کی شکل میں چالیس لاکھ روپے تقسیم کئے گئے تھے تاکہ وہ اپنا کاروباردوبارہ شروع کرسکیں۔ جمعیۃعلماء ہند کے عہدیداران اوررضاکارپہلے دن سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کو ہرطرح کی مددفراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، گزشتہ 13 ستمبر کو فسادات کے بعد سے بے کارہوئے ان دوسوسے زائد افرادکو جو ریہیڑی، پٹری لگاکر روزی روٹی کمارہے تھے نقدمالی امداد فراہم کی تھی، کیونکہ فسادمیں ان کاسارااثاثہ تباہ ہوچکاتھا۔ اس وقت مولانا مدنی نے یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی متاثرہ علاقوں میں بازآبادکاری کا کام بھی شروع کردیا جائے گا اورجن کے گھروں کو غیر قانونی قراردیکرتوڑدیاگیا ہے جمعیۃعلماء ہند انہیں نئے گھر بناکر دے گی۔ مولانا مدنی نے آج میوات میں بے گھر ہوئے 20خاندانوں کوزمین کی رجسٹری کے کاغذات سپردکئے،اورمکانات کی تعمیر کے لئے فی الحال فی کس ایک لاکھ روپے دئیے تاکہ متاثرین اپنی ضرورت کے مطابق مکان تعمیر کرالیں۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں امدادی اورفلاحی کاموں کا جائزہ لیااورمتاثرین سے ملاقات بھی کی۔
اس موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے رکن مولانا مدنی نے کہاکہ ہم خداکاشکر اداکرتے ہیں کہ انتہائی ضرورت مندلوگوں تک مددپہنچاسکے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند روزاول سے امدادی اورفلاحی کاموں میں پیش پیش رہی ہے، یہ کام اس نے کبھی مذہب کی بنیاد پرنہیں کیا بلکہ انسانیت کی بنیادپر کیاہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے،قدرتی آفات ہویاسماجی مشکلات، ملی مسائل ہویاملکی معاملات ہر قدم پر جمعیۃعلماء ہند نے انسانیت کی بنیادپر اپنی خدمات انجام دی ہیں،زلزلہ اورسیلاب جیسے قدرتی آفات کا معاملہ یافرقہ ورانہ فسادکے متاثرین ہوں،بے گناہوں کی قانونی لڑائی ہویا آسام شہریت کا مسئلہ ہوسب کے لئے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اورسب کو بروقت مددپہنچاناان کی بازآبادکاری کرنا،ان کے زخموں پر مرہم رکھنا جمعیۃ نے اپنا فرض تصورکیا ہے، نوح میں بھی اس روایت کو برقرار رکھا جارہا ہے اورمتاثرین کی بلالحاظ مذہب وملت مددکی جارہی ہے لیکن ایک بڑاسوال یہ ہے کہ اس فسادسے جو زخم لگاہے کیا وہ بھراجاسکے گا؟ انہوں نے ایک بارپھر کہاکہ فسادہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں، اوراس کے پیچھے ان طاقتوں کا ہاتھ ہوتاہے جو نفرت کی بنیادپر ہندؤوں اورمسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردینا چاہتی ہیں، یہ فسادکوئی نیا نہیں ہے، آزادی کے بعد سے ملک بھر میں ہزاروں کی تعدادمیں فسادات ہوچکے ہیں، مگر مایوس کن حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک فسادمیں بھی اصل خاطیوں کو ان کوکیفرکردارتک پہنچانے کی ایماندارانہ کوشش نہیں ہوئی۔