لکھنؤ(یو این آئی)مولانا نظام الدین اصلاحی کی شکل میں ہم نے ایک مرد مومن کھویا ہے وہ برصغیر کے اہم ترین علوم قرآنی کے ماہر اور اسکالر تھے ان خیالات کا اظہار مشہور اسکالر اور دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے درسگاہ اسلامی چاندپٹی،اعظم گڑھ کے زیر اہتمام مولانانظام الدین اصلاحی کے سلسلے میں منعقد آن لائن تعزیتی جلسے کے دوران صدارتی خطبے میں کیاہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا نہایت صاف گو اور کھرے انسان تھے ۔ہم انھیں اُس طرح نہیں پہچان سکے جیسا کہ ان کا حق تھا.ماہر اسلامیات پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مولانا نظام الدین اصلاحی تقوی ،علم اور تحریک کا چلتا پھرتا نمونہ تھے ۔وہ دعوت کے ساتھ ساتھ صاحب عزیمت انسان تھے ۔مجھے ان سے استفاہ کا کم موقع ملا لیکن وہ سچے معنوں میں عالم اور ایک داعی تھے ۔
پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے کہا کہ مرحوم نے اپنے آپ کو دعوت دین کے ساتھ وقف کررکھا تھا ۔مادر علمی مدرسۃ الاصلاح سے بڑا گہرا تعلق تھا ۔ان کے اندر دینی حمیت اور غیرت بہت زیادہ تھی ۔
مشہور محقق ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی نے کہا کہ مولانا کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔ان کا مطالعہ کسی ایک حلقے یا مکتبہ فکر تک محدود نہ تھا کیونکہ مولانا کا خیال تھا کہ مختلف حلقوں کی کتابوں کے مطالعے سے نہ صرف غلط فہمی دور ہوتی ہے بلکہ ذہن میں وسعت بھی پیدا ہوتی ہے ۔اس موقع پر اجمل ایوب اصلاحی نے اس بات پر زور دیا کہ مولانا نے جو یادگار علمی سرمایہ چھوڑا ہے اس کو منظر عام پر لانے کے لیے ہمیں کوئی نظم کرنا ہوگا۔مولانا کے پاس اکابرین کے بے شمار خطوط تھے۔ایک بار انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے پاس مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی خطوط تھے۔اصل خطوط انھوں نے ابو الاعلی سبحانی فلاحی کو دیے تھے مگر اب تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ حیات نو کے کس شمارے میں شائع ہوئے ۔مولانا محمد طاہر مدنی نے مولانا کے قرآنی استحضار کا ذکر کیا ۔انھوں نے ان کی ملی اور تحریکی سرگرمیوں کے حوالے سے مشاورت کی خدمات کا ذکر کیا۔مولانا طاہر مدنی نے کہا کہ مولانا اپنی یادداشتوں کی بنیاد پر جماعت اسلامی اور مسلم مجلس مشاورت کی تاریخ مرتب کرنا چاہتے تھے اور اس کا باضابطہ پروگرام بھی بن گیا تھا مگر ایک اہم کام نہیں ہوسکا ۔
اسلامی معاشیات کے ماہر پروفیسر عبدالعظیم اصلاحی نے کہا کہ مولانا ایک عظیم انسان تھے۔مولانا مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ تھے ۔
مولانا عامر رشادی نے مولانا کو ایک ہمہ جہت شخصیت قرار دیا اور کہا کہ استقامت اور عزیمت مولانا کی پہچان تھی ۔سخت سے سخت حالات میں بھی وہ خوف زدہ نہیں ہوتے ۔عامر رشادی نے کہا کہ راشٹریہ علما کونسل اپنے ایک بے باک رہنما سے محروم ہوگئی ہے ۔مولانا کی وجہ سے ہم سب کو بڑی تقویت رہتی تھی ۔علما کونسل کے کمانڈر انچیف کی حیثیت وہ رکھتے تھے ۔جامعۃ الفلاح کے سینئر استاد مولانا احسان الحق فلاحی نے کہا کہ مولاناروانی کے ساتھ عربی میں تقریر کرتے تھے ۔برجستہ قرآنی آیات کے استعمال میں اپنی مثال آپ تھے ۔انھوں نے کہا کہ مولنا نظام الدین صاحب اسلامی انقلاب دیکھنے کے آرزو مند تھے ۔
مدرسۃ الاصلاح کے استاد مولانا عمر اسلام اصلاحی نے کہا کہ وہ ایک بلند حوصلہ اور جرآت مند انسان تھے ۔اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا ان کی سب سے بڑی خوبی تھی۔
ڈاکٹر تابش مہدی نے کہا کہ مولانا نظام الدین اصلاحی تحریک اسلامی کے عالم اور خادم تھے اور انھوں نے اس کو آخری سانس تک نبھایا۔ڈاکٹر نیاز احمد اعظمی نے مولانا کو قرآن فہمی کا امین قرار دیا اور کہاکہ مولانا نظام الدین اصلاحی چاند پٹی کی پہچان تھے۔ان کی خدمت ہمارے لیے سعادت کی بات تھی۔
مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی نے کہا کہ مولانا ایک زبردست قائد تھے ۔انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔شبلی اکیڈمی سے ان کا بڑا سرگرم تعلق تھا۔ان کے مطالعہ کا شوق قابل رشک تھا۔
مسٹرخالد اعظمی(کویت )نے کہا کہ مولانا قرآن سے تعلق کی خاص تلقین کرتے تھے اور اپنے طلبہ سے یہ ضرور کہتے تھے کہ مادر علمی کو کبھی نہیں بھولنا۔انھوں نے یہ بھی کہا مولانا نے ہمیشہ اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس کو اہمیت بھی دیتے تھے ۔اس موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ مولانا آخر تک تحریک اسلامی کے دست و بازو بنے رہے مگر افسوس کہ انھیں لوگوں نے مولانا کو بھلا دیا ۔
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی نے مولانا سے اپنے دیرینہ تعلقات اور تعلق خاطر کا ذکر کیا ۔انھوں نے مختلف واقعات کی روشنی میں مولانا کی دانش وری اور حکمت کو واضح کیا ۔
ڈاکٹر اکرم السلام فلاحی نے کہا کہ مولانا نے ایک شوریدہ ماحول میں فلاح کے تعلیمی و تربیتی نظام کو پرسکون انداز میں جاری رکھا۔انھوں نے مزید کہاکہ مولانا کی تربیت اورنگہداشت کا انداز ایسا تھا کہ بورڈنگ کا ہر طالب علم یہی سمجھتا تھا کہ مولانا مجھے ہی دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمیر منظر نے کہا کہ مولانا اسلام کی عالمی تحریکات پر نظر رکھتے تھے اور ان سے متعلق اپنی معلومات ہمیشہ تازہ رکھتے ۔
ترکی سے جواں سال اسکالر ڈاکٹر عمیر انس فلاحی نے میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سراپا تحریک،سراپا استاداور پرجوش شخصیت کے حامل تھے ۔وہ ایک انقلاب تبدیلی کے خواہاں تھے اور اسی لیے سماج اور تحریک اسلامی سے ان کانہایت سرگرم تعلق رہا ۔
اس موقع پر مولانا کی بیٹی محترمہ شاہین صاحبہ نے مولانا کو جذباتی خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ وہ ایک عظیم رہنما کے ساتھ ساتھ ایک مشفق باپ بھی تھے۔مولانا کے صاحب زادے جناب نصیر الدین فلاحی نے کہا کہ ہمارے والد محترم ایک عظیم انسان تھے ۔انھوں نے ہمیں اپنی عملی زندگی سے یہ سبق دیا کہ حالات کے جبر کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔انھوں نے بے خوف ہوکر جینا ہمیں سکھایا ۔ڈاکٹر عمیر منظر نے مولانا عبدالرحمن عبید اللہ مبارک پوری کا تعزیتی پیغام پڑھ کر سنایا ۔بیماری کے سبب موصوف نشست میں شامل نہیں ہوسکے تھے ۔انھوں نے مولانا کو ایک عظیم استاد قرار دیا اور کہا کہ مجھے ایسے مشفق استاد کم ہی میسر آئے ۔
ابتدا میں اسامہ عظم فلاحی نے سنین کے آئینے میں مولانا کی سوانح حیات کا احاطہ کیا۔
تعزیتی جلسے کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے تلاوت قرآن پاک سے کیا ۔نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے کی۔درسگاہ کے ناطم مولانا عبدالعظیم فلاحی نے کلمات تشکر ادا کیے ۔آخر میں مولانا عبدالعظیم فلاحی نے تمام مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔