استنبول/ دمشق: شام اور ترکیہ میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد دھیرے دھیرے تباہی کی خوفناک شکل واضح ہوتی جارہی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ترکیہ اور شام میں تیسرے روز بھی زلزلے سے تباہ عمارتوں کے ملبے سے لاشیں نکالنے کا کام جاری ہے۔ہلاکتیں 11000 سے متجاوز ہوگئیں۔زلزلے کے بعد سے اب تک درجنوں آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد افراد اس تباہ کن زلزلے سے متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثر علاقے کہرامانمارس، غازیانتپ، سنلیورفا، دیار بکر، ادانا، ادیامن، مالاتیا، عثمانیہ، ہاتائے اور کیلیس ہیں، جب کہ شام میں الیپو ، ادلب ن حما اور لطاقیہ صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سرکاری سطح پر اب تک 8574 جب کہ شام میں 2530 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں ، جب کہ ہزاروں افراد زخمی ہیں، ملبے میں اب بھی سیکڑوں افراد دبے ہوئے ہیں، جن کی زندگی کی امید کی آس میں ریسکیو کا کام جاری ہے۔
ترکیہ کے حکام کے مطابق 380,000 افراد نے سرکاری پناہ گاہوں یا ہوٹلوں میں عارضی رہائش اختیار کرلی ہے۔زلزلہ زدہ علاقوں میں ناصرف ترکیہ اور شام بلکہ پاکستان اور آذربائیجان سمیت کئی ممالک کی ٹیمیں موجودہ ہیں، جو مقامی افراد کے شانہ بشانہ متاثرین کی مدد کررہی ہیں۔ترک وزیر صحت فرحتین کوکا نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں صرف ہاتائے میں ہوئی ہیں جہاں منگل کی شام تک 1647 افراد کی لاشیں نکالی گئیں اور 1846 کو ملبیسے نکالا گیا۔
العربیہ کی خبر کے مطابق ترکیہ کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ نے بدھ کو اعلان کیا کہ نرکیہ کے جنوب مشرق میں آنے والے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 8574ہو گئی ہے۔ زخمیوں کی تعداد 37,011 تک پہنچ گئی ہے۔پناہ گاہوں اور ہسپتالوں میں رش لگ گیا ہے۔ دریں اثنا ترکیہ فوج کے طیاروں نے عدنہ اور ملاتیا سے متعدد زخمیوں کو استنبول منتقل کیا۔دوسری طرف برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق شمال مغربی شام میں ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 2700 تک پہنچ گئی۔دریں اثنا بہت سی مقامی تنظیموں نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ خاص طور پر زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں مدد کے لیے کسی بڑے میکانزم اور جدید تکنیکی ذرائع کی عدم موجودگی میں مدد کی اپیل کی گئی ہے۔
پریس ذرائع نے ’’ العربیہ‘‘ اور ’’الحدث‘‘ کو اطلاع دی ہے کہ حلب میں طبی سامان اور پناہ گاہوں کی شدید قلت ہے اور اس شہر میں اب بھی کئی خاندان ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔دونوں ملکوں میں بچاؤ کی کوششیں جاری ہیں۔ ملبے کے نیچے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے۔ اگرچہ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں وقت بڑھنے کے ساتھ امید کم ہوتی جاتی ہے۔عالمی ادارہ صحت نےخدشہ ظاہر کیا ہے کہ اموات کی اصل تعداد ابتدائی بیان کردہ تعداد سے 8 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔