ریاست کے تین بڑے اسپتالوں کے مردہ خانے میں رکھی ان لاشوں کی شناخت کیلئے ہنوز کسی نے رابطہ نہیں کیا
امپھال: منی پور میں 3 مئی کو شروع ہونے والے تشدد میں جان گنوانے والے 90 افرادکی لاشیں اسپتالوں میں رکھی ہیں جن کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ منی پور میں 3 مئی کو تشدد بڑھنے کے بعد انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی تھیں۔ موبائل انٹرنیٹ پر سے پابندی 23 ستمبر کو ہٹا دی گئی تھی جس کے بعد دو طالب علموں کی لاشوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں،جس کی وجہ سے یہاں شدید احتجاج کاسلسلہ پھر شروع ہونے لگا اور حکومت نے ایک بار پھر وہاں موبائل انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی۔
منی پور میں ذات پات کے تشدد میں اب تک 170 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ریاست کے تین بڑے اسپتالوں کے مردہ خانے میں طبقاتی فسادات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تقریباً 96 ایسی لاشیں پڑی ہیں جن کی شناخت کے لیے ابھی تک کسی نے حکام سے رابطہ نہیں کیا۔
مقامی شہریوں کے مطابق لوگ خوف کے باعث اپنے لواحقین کی لاشیں اسپتالوں سے نہیں لے جا رہے۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق یہ لاشیں کئی ماہ سے مردہ خانے میں پڑی ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر اب سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی سابق ججوں کی ایک کمیٹی نے ریاستی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مرنے والوں کی فہرست عوامی طور پر جاری کرے، تاکہ لاشوں کی شناخت ہو سکے اور لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا جا سکے۔ جن کے دعویدار اب بھی سامنے نہیں آئے ان کی آخری رسومات پورے احترام کے ساتھ ادا کی جائیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق منی پور میں ذات پات کے تشدد میں اب تک 175 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ منی پور میں اکثریتی میتی اور کوکی قبائل کے لوگوں کے درمیان مئی کے آغاز سے شروع ہونے والے فسادات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ دونوں طبقے کے لوگ ریاست کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں آباد ہیں۔
فسادات کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طبقہ کے لوگ دوسرے گروہ کے علاقے میں خوف کے سبب نہیں جا سکتے۔ پوری ریاست ایک طرح سے دونوں ذات کے درمیان تقسیم ہو کررہ گئی۔ یہاں تشدد کے واقعات اب بھی ہو رہے ہیں۔ حکام کے مطابق ریاست میں صورتحال انتہائی سنگین بتائی جاتی ہے۔
منی پور کے دارالحکومت امپھال کے ایک سینئر صحافی واہنگ بام ٹیکندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ذات پات کے تشدد میں مرنے والے 96 لوگوں کی لاشیں امپھال کے دو اسپتالوں – ‘ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس’، ‘جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ اور چوراچند پور کے ریجنل میڈیکل کالج میں رکھی گئی ہیں۔ امپھال وادی میں میتی نسلی گروہ کا غلبہ ہے اور یہاں کے دو ہسپتالوں میں رکھی لاشیں کوکی نسلی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ چورا چند پور کے ڈسٹرکٹ میڈیکل ہسپتال میں رکھی لاشوں میں کوکی اور میتی دونوں گروپوں کے لوگ شامل ہیں، حالانکہ کوکی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ واہنگ بام نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ فسادات کے بعد کوکی میتی کے علاقے میں نہیں جا سکتے اور میتی برادری کے لوگ کوکی علاقے میں نہیں جا سکتے۔
قانون کے مطابق متوفی کے لواحقین کو لاشوں کی شناخت کے لیے ذاتی طور پر اسپتال کے مردہ خانے میں جانا ہوتا ہے اور چونکہ لوگ وہاں نہیں جا سکتے اس لیے یہ لاشیں کئی مہینوں سے بغیر شناخت کے یہاں رکھی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ صورتحال کی انتہائی حساس نوعیت کے باعث ہسپتالوں نے ابھی تک ان لاشوں کی تصاویر اور ان سے متعلق اہم معلومات جاری نہیں کیں۔ حکام اور سیکورٹی فورسز حالات کو کم از کم اس حد تک معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مرنے والوں کے اہل خانہ یہاں آ کر لاشوں کی شناخت کر سکیں تاکہ ان کی آخری رسومات ادا کی جا سکیں، لیکن ایسا بھی ممکن نہیں ہے۔ حکام کے بقول ان لاشوں کے علاوہ 41 کوکی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ کئی لاشیں جل چکی ہیں اور ان کی شناخت مشکل ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو مرنے والوں کی فہرست بھیجی ہے جس میں ان کے نام، عمر اور دیگر معلومات دی گئی ہیں۔