وارانسی:(پریس ریلیز)قرۃ العین حیدرنہ صرف ایک شخصیت ہیںبلکہ وہ ایک انسٹی ٹیوٹ کادرجہ رکھتی ہیں۔ ’آگ کادریا‘اورقرۃ العین حیدرلاز م وملزوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’ آگ کادریا‘کو اس قدرمقبولیت اورشہرت ملی کہ قرۃ العین حیدر کی دوسری تخلیقات پس پشت چلی گئیں۔ان خیالات کااظہار آج منعقدیک روزہ قومی سمینار بعنوان ’ قرۃ العین حیدر:شخصیت اورفن‘میںپروفیسرآفتاب احمدآفاقی صدرشعبۂ اردوبنارس ہندویونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطبہ کے دوران کیا۔ انھوں نے کہاکہ قرۃ العین حیدر نے دوسطحوں پر کام کیاہے۔ انھوں نے روایتوںکو توڑابھی اورنئی روایتیں بھی قائم کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے قلم کارکی شکل میں دنیاکے سامنے آئیں کہ انھیں ایک طرح سے انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ انھوںنے زوردے کہاکہ جب تاریخ گونگی ہوجاتی ہے وہاں ادب بولتاہے۔ ادب کوسچے دستاویزکی حیثیت حاصل ہے۔ اس سمینارکاانعقادبنارس ہندویونیورسٹی کے مہیلامہاودیالیہ(ایم ایم وی) کے اردوسیکشن کے زیراہتمام کیاگیا۔ سمینارکاآغاز مہامنامدن موہن مالویہ جی کے مجسمے پرگلپوشی اوریونیورسٹی کا کل گیت پیش کرکے کیاگیا۔ اس موقع پر ہندی کے معروف ادیب پروفیسربلراج پانڈے نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوںنے اپنے خطبہ میں قرۃ العین حیدرکے ناول ’آگ کادریا‘ کے حوالے سے مختلف پہلوؤں، کرداروں، تہذیبی عناصراوراسالیب کاتفصیلی جائزہ لیااوراس کی ادبی حیثیت کوپیش کیا۔ انھوںنے کہاکہ بنارس ہندویونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں آگ کادریااس وقت شامل نصاب کیاگیا؛جب پروفیسرنامورسنگھ نے یہاں ایک پروگرام میں اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیاتھا۔ ایم ایم وی پرنسپل پروفیسرانومہتاکی سرپرستی میں منعقداس سیمینارمیں افتتاحی خطبہ پروفیسرریتاسنگھ سوشولوجی سیکشن، ایم ایم وی نے پیش کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگوکے دوران مہمانوں کاتعارف بھی کرایااور موضوع کی افادیت پرروشنی بھی ڈالی۔ سیمینارکے کنوینرڈاکٹرافضل مصباحی نے قرۃ العین حیدر کی شخصیت اوران کے فن کاتعارف پیش کیا۔ انھوںنے یہاں اس موضوع پرسیمینارکے انعقاداور اس کی اہمیت وافادیت سے بھی سامعین کوروشناس کرایا۔ چار اجلاس پرمشتمل اس یک روزہ قومی سیمینارمیں صدارت کے فرائض پروفیسررفعت جمال، پروفیسرتعبیرکلام اور ڈاکٹرشاہینہ رضوی نے انجام دئیے اورڈاکٹرمشرف علی، ڈاکٹررشی کمارشرما، ڈاکٹراحسان حسن، ڈاکٹرقاسم انصاری، ڈاکٹرعبدالسمیع، ڈاکٹرلئیق احمد، ڈاکٹرشمس الدین، تسنیم قمر، محمدشہنوازانصاری،ذبیح اللہ ، محمدعامراورآصف جمال نے الگ الگ موضوعات پرمقالے پیش کئے۔ اختتامی اجلاس میں خصوصی خطبہ ڈاکٹراروشی گہلوت نے پیش کیا، جب کہ چیرپرسن کے طورپر پروفیسرسمن جین نے اپنے خیالات کااظہارکیا۔پروفیسرسمن جین نے کہاکہ اردوہماری زبان ہے۔ اس سے عشق کئے بغیربھارتیہ بھاشائوں کی بات آگے نہیں بڑھی سکتی ہے۔ آج شام پانچ بجے بھی سامعین میں جوتوانائی نظرآرہی ہے؛سچائی یہ ہے کہ یہ ادب کی توانائی اورقرۃ العین حیدر کی تخلیقات کامنھ بولتاثبوت ہے۔ مختلف اجلاس میں نظامت کے فرائض، ڈاکٹرمشرف علی، شعبۂ اردوکے ریسرچ اسکالرزمحمداعظم اور کمال الدین نے انجام دئے جب کہ اظہارتشکرکے فرائض طبلہ وڈانس شعبہ کی پروفیسر لیلینابھٹ، پروفیسرریچاکمار، عائشہ پروین اور نسرین جہاں نے انجام دئے۔ یہ سیمینارمہیلامہاودیالیہ کے سائنس بلاک کے کانفرنس ہال میں صبح 10بجے سے شروع ہوااور شام 6بجے تک جاری رہا۔ اس ادارے میں یہ اپنی نوعیت کامنفردپروگرام تھا؛جس سے مہیلامہاودیالیہ کی طالبات کے علاوہ بنارس ہندویونیورسٹی کے دیگرشعبہ جات کے طلبہ وطالبات بھی فیضیاب ہوئے۔خاص طورپر شعبۂ اردوبنارس ہندویونیورسٹی کے طلبہ وطالبات، ریسرچ اسکالرزاورشعبۂ ہندی کے طلبہ وطالبات نے استفادہ کیا۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ، طلبہ کے علاوہ شہربنارس کی علمی ادبی شخصیتوں نے شرکت کی۔ جن میں شاد عباسی، مولاناحسین احمدحبیبی، حافظ جاوید، زیب شمسی، خالدجمال، ڈاکٹرعارف، ڈاکٹرریاض احمد، ڈاکٹراودھیش، ڈاکٹرندھی، فادرفلپ ڈینس وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔