جے پور (یو این آئی) راجستھان قانون ساز اسمبلی، جے پور میں 83ویں آل انڈیا پریزائیڈنگ آفیسرز کانفرنس کا آج آغاز ہوا۔ نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکڑ نے کانفرنس کا افتتاح کیا۔لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا ، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت،راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین مسٹر ہری ونش اور راجستھان قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر سی ۔پی۔ جوشی نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور کانفرنس سے خطاب کیا۔ افتتاحی اجلاس میں 20 پریزائیڈنگ افسران نے شرکت کی۔نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکڑ نے اپنے افتتاحی خطاب میں ہندوستان کو ‘جمہوریت کی ماں’ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جمہوریت کا جوہر عوام کے مینڈیٹ کو وسیع کرنے اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں مضمر ہے۔پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کارراوائی میں رکاوٹوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر دھنکڑ نے عوامی نمائندوں پر زور دیا کہ وہ عوام کی توقعات اور امنگوں کا خیال رکھیں۔ نائب صدر نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس میں ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔
آئین کے تصور کے مطابق ریاست کے تمام محکموں کے درمیان ہم آہنگی پر مبنی رشتوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ جمہوریت تب تک زندہ رہتی ہے اور پھلتی پھولتی ہے جب تک مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے مل جل کر کام کرتے ہیں۔
اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو مضبوط اور مالا مال کرنے میں ہمارے قانون ساز اداروں کا کردار قابل ستائش ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ملک بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں مقننہ اداروں کے کام کاج میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے لے کر بہت سے غیر متعلقہ قوانین کے خاتمے تک، ہم نے عام آدمی کی زندگی میں خوشگوار اور مثبت تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہماری مقننہ عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے کام کاج میں جدید تبدیلیوں کے ساتھ ملک کی ترقی میں مزید مضبوطی سے آگے بڑھیں گے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ 21ویں صدی کے ہندوستان میں لوگوں کی امنگیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اس آرزومند ہندوستان کے مطابق ہمارے قانون ساز اداروں سے لے کر انتظامیہ تک ہمارے نظاموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قانون اور پالیسی کی تشکیل اور ان کے نفاذ میں زیادہ متحرک، جوابدہ اور ہدف پر مبنی ہوں۔ آج کے نئے ہندوستان کے لیے ہمیں اداروں کو مزید موثر اور تکنیکی اعتبار سے بھرپور بنانے کی ضرورت ہے۔
لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے قانون ساز اداروں میں لوگوں کے کم ہوتے اعتماد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام لوگوں میں مقننہ اور عوامی نمائندوں کے بارے میں سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں اس سوالیہ نشان کو بھی حل کرنا ہے اور مقننہ اداروں کے امیج اور ان کی کاکردگی کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ مسٹر برلا نے کہا کہ مقننہ اداروں میں زیادہ نظم و ضبط، بامعنی اور باوقار انداز میں بحث ہونی چاہیے۔ آئین کی دفعات کا تذکرہ کرتے ہوئے مسٹر برلا نے کہا کہ ہمارے آئین سازوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے عام لوگوں کی زندگیوں میں سماجی و اقتصادی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے موثر اداروں کے طور پر کام کریں۔
مسٹر برلا نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ تناظر میں پارلیمنٹ اور مقننہ اداروں کو زیادہ موثر، جوابدہ اور نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پریزائیڈنگ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقننہ اداروں میں عوامی نمائندوں کے ذریعے شہریوں کو اپنی امیدوں، توقعات اور اپنی کوتاہیوں اور مشکلات کا اظہار کرنے کے مناسب مواقع فراہم کریں۔ مسٹر برلا نے یہ بھی کہا کہ قانون ساز اداروں کے ذریعہ ترقی پسند قوانین بنانے میں عوام کی فعال شرکت ہونی چاہئے اور قانون ساز اداروں کو نوجوانوں اور خواتین کو اپنے عمل سے جوڑنا چاہئے۔
لوک سبھا کے اسپیکر نے قانون ساز اداروں کو زیادہ موثر اور کارگر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں کو زیادہ موثر، جوابدہ اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں عوامی نمائندوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں، لوک سبھا اسپیکر نے ڈیجیٹل پارلیمنٹ پروجیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ایک قوم ایک قانون ساز پلیٹ فارم’ کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کرتے ہوئے ہم ملک کے تمام قانون ساز اداروں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لا رہے ہیں۔ اس کام میں تمام پریزائیڈنگ افسران کا تعاون درکار ہے۔
مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تعلق پر بات کرتے ہوئے مسٹر برلا نے کہا کہ ہمارے ملک میں مقننہ اداروں نے ہمیشہ عدلیہ کے دائرہ کار اور اختیارات کا احترام کیا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آئینی مینڈیٹ کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام اداروں کے درمیان اختیارات اور حدود کا خیال رکھتے ہوئے توازن کے اصول پر عمل کرے۔ انہوں نے کہا کہ مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ تینوں کو اپنے اختیارات اور دائرہ اختیار آئین سے ملتا ہے اور تینوں کو ایک دوسرے اور دائرہ اختیار کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی ہم آہنگی، اعتماد اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے عدلیہ کو آئینی حدود میں رہنے کا بھی مشورہ دیا۔