مونگیر(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو)بہارکی سرکردہ سیاسی شخصیت ڈاکٹرتنویر حسن کے برادر بزرگ پروفیسر شبیر حسن کو آج خانقاہِ رحمانی کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔کل شام طویل علالت کے بعدموصوف کا انتقال ہوگیاتھا۔ پروفیسرشبیرحسن کی عمر تقریباً 72 سال تھی۔آج نماز ظہر کے بعدجنازہ کی نماز خانقاہ رحمانی مونگیر میں ادا کی گئی اور تدفین خانقاہ رحمانی کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ اس موقع پر مونگیر کے علاوہ بہار کے کئی شہروں کی معروف شخصیتیں موجود تھیں۔پروفیسر شبیر حسن کا تعلق بیگوسرائے کے قصبہ چھوٹی بلیا سے تھا لیکن زمانہئ طالب علمی سے ہی موصوف مونگیرمیں مقیم تھے۔یوں بہ حیثیت پروفیسر انہوں نے اپنی زندگی مونگیر میں گزاری اور سبکدوشی کے بعدبھی انہوں نے مستقل یہیں سکونت اختیار کی اور اب یہیں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔
پروفیسر شبیر حسن پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی تاج حسن آئی پی ایس افسر ہیں اور اس وقت ڈائریکٹر جنرل، فائر سروسز، سول ڈیفنس اور ہوم گارڈز کے عہدہ پر تعینات ہیں،جبکہ ان کے ایک بھائی تنویر حسن بہار کی سیاست میں طویل مدت تک صَحْرا نَوَرْدی کرتے رہے ہیں۔ انہیں 1990سے 2014 کے درمیان بہار قانون ساز کونسل کی رکنیت سے بھی کئی بار سرفراز ہونے کا ملا۔ اس وقت موصوف راشٹریہ جنتادل کے صوبائی نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
پروفیسر شبیر حسن حالانکہ سائنس کے استاد تھے،لیکن ان کا علم و ادب سے گہرا تعلق رہا۔انہوں نے ہندی اور اردو میں کئی ایسی کہانیا ں لکھیں، جنہیں ادب نوازوں کے ذریعہ خاصا پسند کیا گیا۔ ان کا تنقیدی شعور خاصا بالیدہ تھا۔ ان کی کئی تصنیفات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ پروفیسر شبیر حسن کے اردو افسانوں کا مجموعہ ’دھوپ کے مسافر‘کے نام سے 2000 میں شائع ہوچکا ہے۔ جبکہ ان کی ایک اور اردو تصنیف’مولانا حسرت موہانی: تحریک آزادی کے جاں باز سپاہی‘کے نام سے 1981 میں منظر عام پر آچکی ہے۔
موصوف سیاست سے بھی وابستہ رہے اور کمیونسٹ خیالات سے بڑے متاثر تھے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ سابق امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کے موصوف معتمدین میں شامل رہے اور یوں جب کبھی مولانا ولی رحمانی کو کسی خاص مسئلے پر مشاورت کی ضرورت پڑتی،موصوف خانقاہ رحمانی طلب کئے جاتے اوراپنے خیالات اور نظریات سے مولانا مرحوم کو واقف کراتے۔ مجموعی طورپر پروفیسر شبیر حسن کی ذات مونگیر والوں کیلئے کئی لحاظ سے قابل توجہ رہی۔خانقاہِ رحمانی سے موصوف کا یہ تعلق بعد از مرگ بھی قائم رہا اورموصوف یہیں کے قبرستان میں دفن بھی ہوگئے۔