حیدرآباد(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک) عالمی شہریت جرنلسٹ عارفہ خانم شیروانی نے کہاکہ مستقبل میں ہندوستان ایک جمہوری برقرار رہے گا یا نہیںرہے گا اس بات کو ئی گارنٹی نہیں ہے مگر جب کبھی اس دور کی تاریخ کا سیاہ باب تحریر کیاجائے گا تو اس وقت مورخ کا قلم اُردوصحافت کی اچھائیاں ضرور لکھنے پر مجبور ہوجائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ملک فسطائیت کے سب سے برے دور سے گذر رہا ہے اور اس میں صحافت اگر غلام ہوگئی ہے تو یقین جانیں ملک بھی غلامی کی طرف گامزن ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کھلے عام نسل کشی کو فرو غ دینا صحافت نہیںہے۔سیاست نیوزکی خبرکے مطابق مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد میں مولانا ابولکلام آزاد کی یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ سہ روز تقاریب کے دوسرے دن ’’اُردو صحافت کے زوال کے اسباب او راس کے وسائل‘‘ کے عنوان پر منعقدہ مباحثہ سے عارفہ خانم مخاطب تھیں۔ صحافی محمد ریاض احمد، جناب شکیل شمسی،جناب عزیز برنی،جناب اعظم شاہدنے بھی اس مباحثہ میںحصہ لیا جبکہ صحافی شاہد لطیف نے کارروائی چلائی ہے۔ڈیجیٹل پلیٹ فارم د ی وائر کی جرنلسٹ عارفہ خانم شیروانی نے اپنے سلسلہ خطاب کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ ملک کی جمہوریت پر بہت بڑا خطرہ منڈلارہا ہے تو ان حالات میںاُردو صحافت کی کارکردگی پرسوال اٹھانے والوں کے لئے یہ کافی ہے کہ اُردو صحافت نے کبھی بھی فرقہ واریت کوہوا نہیںدی ہے بلکہ بھائی چارہ اور امن وامان کو فروغ دینے کاکام کیاہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگرہم ملک میںپیدا شدہ بحران ‘ مسائل کو ان بیس کروڑ لوگوں تک پہنچانے میںکامیا ب ہوجاتے ہیںیہ اُردو صحافت کا صحیح استعمال ماناجائے گا۔ صحافی محمد ریاض احمد نے کہاکہ عصری تقاضوں سے اُردو صحافت کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے ۔ انہوںنے مزیدکہاکہ کسی بھی زبان کی صحافت میںاکثر سیاسی بیانات کو ترجیح جاتی ہے او راُردو صحافت بھی اس سے محفوظ نہیںرہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اُرد و صحافت کے قارئین کو بڑھانے کے لئے ‘ سائنس وٹکنالوجی ‘ تجارت ‘ عصری علوم پر مشتمل مضامین کی اشاعت کو یقینی بنانا چاہئے ۔ انہوںنے کہاکہ ملک میںجس طرح کے حالات اقلیتوں کے ہیں ویسا ہی حال اُردو زبان کا بھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بے باکی کے ساتھ آنکھ میںآنکھ ڈال کر سوال پوچھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے ادارے کو عوامی تحریک میںتبدیل کرنے کاکام ادارے سیاست نے کیاہے۔ جناب ریاض احمد نے کہاکہ فروغ اردو کے لئے ادارے سیاست کے کارنامہ اظہر من الشمس ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بارہ لاکھ سے زائد افراد نے ادارے سیاست کے فروغ اُردو تحریک کے لئے منعقد کئے جانے والے زبان دانی‘ اُردو دانی ‘ انشاء کے امتحانات میںحصہ لے کر کامیابی حاصل کی ہے۔
جناب شکیل شمسی نے کہاکہ اُردو کے فروغ کے لئے زرین موقع سوشیل میڈیاہے ۔ انہو ںنے بھی عصری دنیا سے اُردو صحافت کی ہم آہنگی کو زیر بحث لاتے ہوئے کہاکہ اُردو کی نئی بستیاں قائم ہورہی ہیں۔مغربی ممالک میںاُردو کی آباد نئی بستیوں سے جڑتے ہوئے فروغ اُردو صحافت کاکام کیاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سوشیل میڈیاپر جڑنے کی وجہہ سے قارئین کی تعداد میںبھی اضافہ ہورہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ اُردو اخبارات کو بڑے بڑے اشتہارات جو ملتے ہیںوہ آسان کام نہیںہے ۔
جناب عزیز برنی نے کہاکہ کارپوریٹ گھرانوں کے اخبارات چاہئے وہ اُردو میں یا ہندی میںشائع ہوتے ہیںوہ صرف اپنے سیاسی او رمعاشی فائدے کے لئے اخبارات چلاتے ہیں۔ کئی اخبارات کے مالک راجیہ سبھا ایم پی بھی بنائے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ نقصان کے باوجود اخبارات چلاتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اس کی وجہہ سے اخبارات کی ترجیحات میںتبدیلی آئی ہے جو اُردو صحافت کا مفادات حاصلہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ سوشیل میڈیاایک بہترین ذریعہ ہے اُردو صحافت کےلئے فروغ کےلئے اور اس کااستعمال کرتے ہوئے اُردو صحافت کو پروان چڑھایاجاسکتا ہے ۔
جنا ب اعظم شاہد نے اُردو صحافت کے نئے آفاق کے متعلق آگاہی ضروری ہے ۔ اعظم شاہد نے بھی مفادات حاصلہ کے لئے سیاسی قائدین کی جانب سے اُردو اخبارات چلانے کی بات کی او رکہاکہ اُردو صحافت میںاصلاحات کے لئے دستیاب وسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہو ںنے کہاکہ پرنٹ میڈیا میں قارعین ‘ الکٹرانک میڈیامیںناظرین اور مالکین کے لئے منافع بخش وسائل دریافت کریں۔ روزنامہ سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سیاست نے کمیونٹی ڈیولپمنٹ کا جو بیڑا اٹھایا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔