علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سوشل سائنس فیکلٹی کے کانفرنس ہال میں ڈاکٹر سیدہ نرجس فاطمہ کی کتاب ’’منتخب مضامین‘‘ کی رسم اجرا عمل میں آئی جس میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے متعلق اساتذہ نے حصہ لیا اور کتاب کے مشتملات اور دیگر اوصاف پر تبادلہ خیال کیا۔
اپنے صدارتی خطبہ میں ابن سینا اکیڈمی،علی گڑھ کے بانی ڈائریکٹر پروفیسر حکیم سید ظل الرحمان نے ڈاکٹر نرجس فاطمہ کو کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں شامل بیش تر مضامین اردو ادب کی اہم صنف جمالیاتی تنقید اورفلسفیانہ مطالعہ پر مبنی ہیں جو ڈاکٹر نرجس فاطمہ کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ انہوںنے کہا کہ اردو ادب کے متنوع موضوعات پر جمالیاتی عناصر کو نشان زد کرتی ہوئیں ڈاکٹر فاطمہ کی تحریریں دراصل ادبی مطالعات میں گرانقدر اضافہ ہیں۔ ان کا کینوس بڑا وسیع ہے اور ان کے مضامین اردو کے قارئین کو فکر کی نئی روش سے روشناس کرتے ہیں۔
مہمان خصوصی پروفیسر قاضی جمال حسین نے کتاب میں شامل مضامین پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب سے متعلق موضوعات کا جمالیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ اپنے آپ میں ایک مشکل کام ہے کیونکہ لوگ عموماً جمالیاتی اور تاثراتی مطالعہ میں فرق نہیں کرپاتے جبکہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمالیات کا تعلق تمام فنون لطیفہ سے ہے اور ڈاکٹر نرجس فاطمہ نے اپنے مضامین میں جمالیاتی عناصر کو بہت خوبصورتی اور چابکدستی کے ساتھ برتا ہے۔انہوںنے کہا کہ حسن کا ادراک ایک مشکل عمل ہے اور اس کو تحریروں میں ڈھالنا ہی جمالیاتی مطالعہ کا خاصہ ہے۔
پروفیسر قاضی جمال حسین نے کہا کہ ڈاکٹرفاطمہ کے مضامین میں فلسفے کا جا بجا اظہار ہوتا ہے اور یہ ان کی تحریروں کی دوسری اہم خوبی ہے۔
مہمان ذی وقار، شعبہ اردو کے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ کسی دانش گاہ میں کسی کتاب کا اجرا ایک اہم واقعہ ہے کیونکہ یہ اس ادارے کی علمی سرگرمیوں کی خبر دیتا ہے۔ ڈاکٹر نرجس فاطمہ کی کتاب نئے افکار سے مملو مضامین پر مشتمل فلسفیانہ اور جمالیاتی نظریات کی عکاس ہے۔ انہوںنے کہا کہ ڈاکٹر فاطمہ کا تعلق ایک نہایت ہی علم نواز خانوادے سے ہے اور انہوںنے اسی علمی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے 2009میں جمالیاتی تنقید کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر نرجس فاطمہ کے شوہر اور شعبہ فلسفہ سے سبکدوش ڈاکٹر تصدق حسین نے مہمان خصوصی پروفیسر سید ظل الرحمان کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر نرجس فاطمہ کی علمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں طلبہ کے لیے کافی مواد موجود ہے اور وہ اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر فاطمہ کی کتاب سوچنے کے عمل کو متحرک کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں شامل مضامین نہ صرف اردو ادب کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں بلکہ ان میں فلسفہ اور جمالیات کے ان عناصر کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انسان کی فکر میں بالیدگی اور ان کے اندر روشن خیالی پیدا کرتے ہیں۔پروفیسر صدیقی نے کہا کہ یہ کتاب انگریزی ادب، بالخصوص تقابلی ادب کے طلبہ و طالبات کے لیے بھی انتہائی معاون ہے کیونکہ کتاب میں ’’شکنتلا اور شکسپیرئن ہیروئنس‘‘، ’’اینٹی گونی اور یونانی ڈرامہ‘‘ اور ’’ٹو بہ ٹیک سنگھ: ایک تنقیدی جائزہ‘‘ جیسے مضامین کے حوالے سے عالمی ادب کے خواص اورتقابلی ادب کے مطالعے پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔آخر میںمہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شعبہ ہندی کے سربراہ پروفیسر عاشق علی نے امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر نرجس فاطمہ کی کتاب کی علمی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوگی اور اس سے طلبہ فیض یاب ہوں گے۔اس موقع پر پروفیسر مہتاب حیدر نقوی، پروفیسر شاہد رضوی، پروفیسر مدیح الرحمان، پروفیسر ثمینہ خان، پروفیسر پریم کمار، پروفیسر سمیع رفیق، پروفیسر شمبھوناتھ تیواری، مسٹر اجے بساریہ سمیت بڑی تعداد میں مختلف شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ موجود تھے۔