نئی دہلی(یو این آئی) سپریم کورٹ نے 5 مئی کو انڈرگریجویٹ سطح پر میڈیکل سمیت کچھ دوسرے کورسز میں داخلے کے لیے منعقدہ قومی اہلیت وداخلہ ٹیسٹ 2024 میں مبینہ بے ضابطگیوں کو ‘مسلمہ حقیقت’ اور ‘امتحان کی سالمیت سے سمجھوتہ’ قرار دیتے ہوئے پیر کے روز کہا کہ پیپر لیک (سوالنامہ کو عام کیا جانا) کی عمومیت کا تعین کرنے کے بعد، یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ متعلقہ امتحان کو دوبارہ منعقد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل کو تفصیل سے سننے کے بعد کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امتحان کی سالمیت سے سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ مستقبل میں ایسا ہونے سے روکنے کے لیے ہر پہلو پر بحث کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
بنچ نے مرکزی حکومت اور نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) سے کہا کہ وہ 10 جولائی تک معلومات فراہم کریں کہ نیٹ امتحان کے سوالناموں کو کس حد تک پبلک کیا گیا ہے (پرچہ لیک)۔ اس کے علاوہ سوالنامہ عام ہونے اور 5 مئی 2024 کو منعقد ہونے والے امتحان کے درمیان کا وقت بھی مقررہ تاریخ سے مطلع کیا جائے۔عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بنچ نے واضح کیا کہ اگر نیٹ امتحان میں دھوکہ دہی (پیپر لیک) سے فائدہ اٹھانے والوں اور بے قصور امیدواروں میں فرق کرنا ممکن نہیں ہے تو امتحان دوبارہ کرایا جانا چاہئے۔
بنچ نے کہا، "یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ (مثالی ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے) سوالنامہ عام ہوا اور اس کی نوعیت کچھ ایسی ہے جس کا ہم تعین کر رہے ہیں۔ اگر یہ وسیع پیمانے پر عام نہیں ہوا ہے تو اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف، دوبارہ امتحان کا حکم دینے سے پہلے ہمیں سوالنامہ کو عام کرنے کی حد کے بارے میں باخبر ہونا چاہیے، کیونکہ ہم تقریباً 24 لاکھ طلبہ وطالبات کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں۔ اس میں خرچ ہونے والے اخراجات، سفر، تعلیمی نظام الاوقات میں خلل جیسے اہم حقائق شامل ہیں۔لہذا (پیپر) لیک ہونے کی نوعیت کیا ہے؟ لیک کیسے ہوئی (سوالنامہ عوام تک کیسے پہنچا)، مرکز اور این ٹی اے نے ان طلبہ کی شناخت کے لیے کیا کارروائی کی ہے جو اس غلط کام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ نے زور دے کر کہا، "ہمیں پیپر لیک سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کرنے میں بے لاگ ہونا پڑے گا۔جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے این ٹی اے کو ہدایت دی کہ وہ 10 جولائی تک سوالنامہ لیک ہونے کی نوعیت، اس کے مقامات اور پرچوں کو عام کیے جانے اور امتحان کے انعقاد کے درمیان کے وقت کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے۔
ساتھ ہی، مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کو 23 جون سے کی گئی تحقیقات کی پیش رفت کی تفصیلات 10 جولائی تک سپریم کورٹ میں داخل کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔سماعت کے دوران، بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے سائبر فورنسک ٹیم اور ڈیٹا اینالیٹکس کی خدمت لینے پر سوال کیا تاکہ مشکوک مارکروں (جوابی شیٹ ) کی شناخت کی جا سکے۔بنچ نے کہا کہ آیا نیٹ 2024 دوبارہ کرایا جانا چاہئے یا نہیں یہ مقررہ ضابطوں پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا مبینہ خلاف ورزی منظم سطح پر ہوئی ہے۔ کیا یہ ایسی نوعیت کا ہے کہ اس سے پورے امتحانی عمل کی سالمیت متاثر ہوئی ہے؟ کیا دھوکہ دہی سے فائدہ اٹھانے والوں کو معصوم طلبہ وطالبات سے الگ کرنا ممکن ہے؟
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت، این ٹی اے اور سی بی آئی سے کہا کہ وہ حلف نامہ جمع کریں، بشمول تفتیشی افسر کی رپورٹ، سوالنامہ کیسے عام کیا گیا۔سماعت کے دوران بنچ نے امتحانات کا انعقاد کرنے والے ادارے این ٹی اے سے سوالناموں کی چھپائی، ملک اور بیرون ملک قائم امتحانی مراکز تک پہنچنے کے انتظامات اور اس کی سکیورٹی سمیت مختلف پہلوؤں پر تفصیلی سوالات پوچھے۔
قابل ذکر ہے کہ امتحان میں شامل ہونے والے کچھ طلبہ وطالبات نے بڑے پیمانے پر امتحان میں بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے امتحان کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے علیحدہ درخواستیں دائر کی ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں نے عرضی داخل کر کے عدالت سے دوبارہ امتحان نہ کرانے کی درخواست کی ہے۔مرکزی حکومت اور این ٹی اے نے دوبارہ امتحان کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت کے سامنے حلف نامہ داخل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے لاکھوں ایماندار طلبہ وطالبات کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔تاہم، حکومت اور این ٹی اے دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ امتحانی مراکز پر بے ضابطگیوں کی شکایات ملی تھیں، جن کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔