ریاض(ایجنسیاں)سعودی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے باہر انتہائی دائیں بازو کے ایک سیاست دان کو قرآن کا نسخہ جلانے کی اجازت دینے پر سویڈش حکام کی شدید مذمت کی ہے۔وزارت خارجہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا، "وزارت خارجہ بات چیت، رواداری اور بقائے باہمی کی اقدار کو فروغ دینے اور نفرت اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی ضرورت کے مضبوط سعودی موقف کی تصدیق کرتی ہے۔”
قرآن پاک کو نذر آتش کا کام ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ہارڈ لائن کے انتہا پسند رہنما راسمس پیلوڈن نے کیا۔ پیلوڈن، جن کے پاس سویڈن کی شہریت بھی ہے، ماضی میں متعدد ایسے مظاہرے کر چکے ہیں جہاں انہوں نے قرآن کی بے حرمتی کی اور نذر آتش کیا۔پیلوڈن نے پولیس سے حاصل کیے گئے اجازت نامے میں کہا ہے کہ اس کا احتجاج اسلام اور اسے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سویڈن میں آزادی اظہار پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے خلاف ہے۔ ادھر جرمن خبر رساں ادارہ ڈوئچ ویلے کا کہنا ہے کہ ترکی اور سویڈن کے مابین تناؤ پھیل کر ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ انقرہ نے سویڈش وزیر دفاع کا دورہ ترکی منسوخ کر دیا جبکہ اسٹاک ہوم میں اسلام مخالف رہنما راسمس پالوڈن نے ایک مظاہرے کے دوران قرآن مجید کو نذر آتش کر دیا۔
ترکی میں استنبول اور سویڈن میں اسٹاک ہوم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان دونوں ممالک کے مابین سویڈن کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں مجوزہ شمولیت کے سلسلے میں پایا جانے والا اختلاف رائے ہفتہ 21 جنوری کو پھیل کر ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر گیا۔
سویڈش حکام نے انتہائی دائیں بازو کے سویڈش ڈینش سیاست دان راسمس پالوڈن کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے ترکی مخالف احتجاجی مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اس سیاست دان نے اپنے ان ارادوں کا قبل از وقت اظہار بھی کر دیا تھا کہ وہ احتجاج کے دوران مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی ایک جلد کو نذر آتش کرنا چاہتے تھے۔
اس پر انقرہ میں ترک حکومت شدید ناراض تھی اور آج ہفتے ہی کے روز پہلے ترک وزیر دفاع نے یہ اعلان کیا کہ سویڈش وزیر دفاع کا اگلے ہفتے کے لیے طے شدہ دورہ ترکی منسوخ کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ اسٹاک ہوم میں اسی مجوزہ مظاہرے کے لیے دی گئی سرکاری اجازت بنی تھی۔اس کے بعد استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے اسٹاک ہوم حکومت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ راسمس پالوڈن کو دی جانے والی مظاہرے کی اجازت منسوخ کرے۔ یہ مظاہرہ اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے کیا جانا تھا۔ ترک وزیر خارجہ چاوش اولو نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ سویڈش حکام کی طرف سے پالوڈن کو دی جانے والی احتجاجی مظاہرے کی اجازت اظہار رائے کے حق کے زمرے میں آتی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف سویڈش ڈینش سیاست دان راسمس پالوڈن کے اقدامات کی وجہ سے گزشتہ سال بھی سویڈن بھر میں فسادات کی شکل اختیار کر لینے والے مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ہفتے کے روز راسمس پالوڈن عالمی وقت کے مطابق دن کے ایک بجے سے پہلے ہی اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے باہر پہنچ گئے تھے، جہاں انہوں نے پہلے تقریباﹰ ایک گھنٹے تک تقریر کی۔ اس میں انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ قرآن کو نذر آتش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس موقع پر پولیس کی بھاری حفاظتی نفری بھی موجود تھی اور حاضرین کی تعداد سو کے قریب تھی، جن میں کئی صحافی بھی شامل تھے۔
اپنی تقریر میں راسمس پالوڈن نے سویڈن میں اسلام اور تارکین وطن پر شدید تنقید کی، جس کے اختتام پر انہوں نے قرآن کی ایک جلد کو لائٹر سے آگ لگا دی اور کچھ دیر تک جلتا ہوا قرآن پاتھ میں پکڑے رکھا۔پالوڈن نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا، ”اگر آپ کی سوچ یہ نہیں کہ اظہار رائے کی آزادی ہونا چاہیے، تو آپ کو کہیں اور جا کر رہنا چاہیے۔‘‘
اس احتجاجی مظاہرے کے وقت اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کی عمارت کے دوسری طرف ترکی کے حامی مظاہرین کا ایک چھوٹا گروہ بھی موجود تھا، جو ترکی کے موقف کی حمایت کر رہا تھا۔
اسٹاک ہوم میں راسمس پالوڈن کی طرف سے ایک مظاہرے کے دوران قرآن نذر آتش کیے جانے پر ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے سویڈش حکام پر سخت تبقید کرتے ہوئے کہا کہ اس مظاہرے پر پابندی لگائی جانا چاہیے تھی مگر ایسا نہ کیا گیا۔
چاوش اولو نے الزام لگایا، ”یہ ایک نسل پرستانہ اقدام ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی تو بالکل ہی نہیں ہے۔‘‘
اسی دوران ترک صدر ایردوآن کےایک ترجمان نے آج کہا کہ انقرہ کی طرف سے بار بار کی تنبیہات کے باوجود اسٹاک ہوم میں اس مظاہرے کی اجازت دنیا ”نفرت کی بنا پر جرائم اور اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘‘
صدارتی ترجمان کے مطابق، ”مقدس اقدار پر حملہ آزادی نہیں بلکہ جدید بربریت ہے۔‘‘انقرہ حکومت کی اتحادی اور دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے جماعت ایم ایچ پی کے سربراہ مولود باہچیلی نے بھی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”ترک پارلیمان سویڈن کے لیے نیٹو کی رکنیت کی منظوری نہیں دے گی۔‘‘