اقوام متحدہ(ایجنسیاں)روس اور چین نے جمعے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں غزہ کے حوالے سے امریکی قراردار ویٹو کر دی ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے امریکہ پر ’منافقانہ کردار‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالا۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف ہے اور اس نے سیزفائر کی گذشتہ قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔ اب اس نے قرارداد پیش کی جس میں پہلی پہلی بار ’فوری اور پائیدار جنگ بندی کی ضرورت‘ کی حمایت کرتے ہوئے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کی مذمت کی گئی۔
روس اور چین نے جہاں اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کیا وہیں الجزائر نے بھی اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ گیانا غیرحاضر رہا۔ سلامتی کونسل کے باقی 11 اراکین نے امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ ان میں کونسل کے مستقل ارکان فرانس اور برطانیہ بھی شامل تھے۔روسی سفیر واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔انہوں نے امریکہ پر طنز کیا کہ ’غزہ کو عملی طور پر زمین کے چہرے سے مٹا دیے جانے کے بعد‘ وہ سیزفائر کی بات کر رہا ہے۔
روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے (امریکہ کی جانب سے) ایک خاص قسم کے منافقانہ طرز عمل کا مشاہدہ کیا ہے۔امریکی پروڈکٹ (قراردار) کو حد سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا ہے، جس کا واحد مقصد ووٹرز کے ساتھ کھیلنا اور غزہ میں جنگ بندی کے تذکرے کی شکل میں ان کے سامنے ہڈیاں پھینکنا ہے۔‘
واسیلی نیبنزیا نے مزید کہا کہ یہ قرارداد ’اسرائیل کے استثنیٰ کو یقینی بنائے گی، جس کے جرائم کا مسودے میں اندازہ بھی نہیں لگایا گیا ہے۔‘یہ امریکی مسودہ ممکنہ جنگ بندی کو جاری مذاکرات سے جوڑتا ہے۔ یہ مذاکرات قطر، امریکہ اور مصر کی حمایت سے ہو رہے ہیں تاکہ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے بدلے میں جنگ کو روکا جا سکے۔امریکی لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے روس اور چین کے ویٹوز کے حوالے سے کہا کہ یہ نہ صرف ’خودغرضانہ بلکہ چھوٹی حرکت‘ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’روس اور چین واضح طور پر ایک ایسی قرارداد کے لیے ووٹ ڈالنا نہیں چاہتے تھے جو امریکہ نے تیار کی ہے۔‘