کوٹہ (پریس ریلیز)راجستھان اردو اکیڈمی کی جانب سے شکور انور کو سینئر ادیب ایوارڈ سے نوازا گیا۔راجستھان اردو اکیڈمی ہر سال ریاست کے ادیب ،شعرااور صحافیوں کو ایوارڈ سے نوازتی ہے۔اس موقع پر شکور انور کو سینئر ادیب ایوارڈ سے نواز کر اردو کی خدمت کاحق ادا کیا ہے۔شکور انور کی ادبی وشعری خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔آپ کی شخصےت اور فن پر مختار حسین انصاری کے ذرےعے ایک کتاب( شکور انور کا شعری منظر نامہ ) کے موضوع سے ترتےب دی جاچکی ہے ،جس میں ملک کے نامور مشاہیر ادب اور ناقدین کے مضامین شامل ہیں،یہ کتاب حالی پبلیشنگ ہاوس لکشمی نگر دہلی سے گذشتہ برس شائع ہوچکی ہے۔اس کے علاوہ آپ کے چھ(6) شعری مجموعہ شائع ہوکر حلقہ ادب میں مقبول ہوچکے ہیں۔ جن میں ہم سمندر سمندر گئے،دریا لہریں اور کنارا،رےت کاایک گھر،پتھریلی جھیلیں،ہم سفر اور چل،شعر در شعر آئینہ شامل ہیں۔واضح رہے شکور انور ان دنوں علیل ہیں اور چلنے سے معذور ہیں،اسی سبب ان کا ایوارڈ ان کے فرزندوسیم انور کو ایک پر وقار تقریب میں دے کر عزت افزائی کی گئی۔شکور انور نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ میری خوش نصیبی اور اردو اکیڈمی کی اردو دل نوازی اور خدمت کا بین ثبوت ہے کہ اس نے مجھ جیسے بیمار ادیب کو فراموش نہیں کیا بلکہ ایوارڈ سے سرفراز کر کے میرے حوصلے کو اور بلند کیا ہے۔میں بیمار صحیح لیکن اس ایوارڈ سے میرے جسم میں توانائی دوڑ گئی ہے اور میں اردو اکیڈمی کا بے حد مشکور ہوں کہ اس نے میرے حوصلے کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ضرورت ہے کہ سماج کا ہر فرد اردو کی خدمت میں لگ جائے اور اپنے اپنے حصے کا کام کرتا جائے ۔اردو کی بقا کے لیے اردو کو روزگار سے جوڑنے کے لیے اردو زبان کا سیکھناضروری ہے،اردوزبان کولکھنا پڑھنا ہوگااور بول چال میں اردو عام کرنی ہوگی۔ اپنے دستخط اور خطوط کے پتے قصداً اردو میں لکھنے ہوں گے تب جاکر اردو ماضی کی طرح ایک بار پھر سارے جہاں میں دھوم مچائے گی۔آج اردو کی سماج اور مارکیٹ کو زبردست ضرورت ہے ۔اردو کی بولی جارہی ہے اور اردو میں تحریر لکھی جارہی ہے بس رسم الخط الگ ہے اس لیے اردو رسم الخط کو بچانے کے لیے ہم سب اردو کو معاشرے میں پھیلائیں اور فروغ اردو کی تحریک چھیڑدیں ۔یہی اردو کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔اردو میں قصے ،کہانی اور اپنامافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کریں ۔